Sunday, February 16, 2020

جب بھارتی فلم سے زیبا بیگم کا کردار کاٹا گیا اور وہ فلاپ ہوئی



انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں ماضی کی مشہور اداکارہ زیبا بیگم نے بتایا کہ منوج کمار نے بھارتی فلم سائن کرنے کے لیے ان کی برسوں خوشامد کی اور جب زیبا محمد علی نے فلم کلرک میں کام کیا تو بعد میں ان کا کردار کاٹ دیا گیا اور فلم کا حشر بھی برا ہوا۔

ماضی کی معروف اداکارہ زیبا بیگم کہتی ہیں کہ میں دو سال پہلے تک میں سنسر بورڈ کی چئیر پرسن تھی اس وقت سب فلمیں دیکھتی تھی لیکن ابھی کوئی حالیہ فلم نہیں دیکھی اور کوئی ایسی آئی بھی نہیں کہ جس کا میں تذکرہ کروں۔
ہاں ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ اور’ایکٹر اِن لا‘ خاصی اچھی فلمیں تھیں۔ کچھ ایسی فلمیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جو نہایت ہی فضول تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ڈراموں کو ایڈٹ کرکے ان میں دو تین گانے ڈال کرسنسر کے لیے فلم بھیج دی گئی ہے۔
سنسر بورڈ کی سابق چئیرپرسن نے مزید کہا کہ میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ آج کی بہت ساری فلموں میں ڈراموں کا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ چیز ہر کسی کو سمجھ تو آتی ہے لیکن وہ وضاحت نہیں کر پاتا۔ میں سمجھتی ہوں کہ فلم پونے تین یا تین گھنٹے کی ہوتی ہے اس کی ٹیکنیک فاسٹ ہوتی ہے جبکہ ڈراموں کی ٹیکنیک سلو ہوتی ہے بس یہ چیز ڈائریکٹرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
میرے زمانے میں سنسر پالیسی بہت موثر رہی۔ میں نے بے ہودہ پنجابی فلموں کو بین کیا، انڈین فلموں کو بین کیا، جتنا عرصہ میں سنسر بورڈ کی چئیرپرسن رہی میں نے سنسر پالیسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ بے ہودہ گانے، فلمیں، سین، شاعری کو بین کیا۔ بعض اوقات تو ایسے سین بھی ہوتے تھے کہ جن میں کسی بھی پولیس سٹیشن یا گھر پر بم پھینک کر زبردستی دہشت گردی دکھائی جاتی تھی میں ایسے سینز کو ڈیلیٹ کر دیا کرتی تھی۔ ہاں اب اس سے پہلے اور بعد میں سنسر پالیسی کیسی تھی اس حوالے سے میں کچھ بھی تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گی۔
 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری کا زوال بے ہودہ پنجابی فلمیں تھیں۔ میں پنجابی فلموں کے خلاف نہیں ہوں لیکن اُن فلموں میں جو لباس پہنے جاتے ہیں آپ بتائیں کہ کیا حقیقی زندگی میں ہم اس طرح کے لباس پہن سکتے ہیں؟
گنڈاسا کلچر نے رہی سہی کسر پوری کر دی ایک پنجابی فلم ہٹ ہوئی تو اس کی طرز پر مزید سو فلمیں بنیں جن میں کہانی نام کو بھی نہ تھی۔ پروفیشنلز کی جگہ نان پروفیشنلز نے لے لی کام کرنے والے گھر بیٹھ گئے۔ جب ہم نے یہ صورت حال دیکھی تو فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی کیوں کہ جو فلمیں بن رہیں تھیں ان میں کام کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔
ہماری طرح اور بھی بڑے نامورسٹارز نے فلموں کو خدا حافظ کہہ دیا۔ ٹیکنیشنز فاقوں اور خود کشیوں پر مجبور ہو گئے، رفتہ رفتہ فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ بارونق سٹوڈیوز نے جب کھنڈرات کی شکل اختیار کی تو دل دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا تھا۔
میں نے اپنے پورے کیرئیر میں صرف ایک پنجابی فلم کی، وہ بھی ڈائریکٹر سید سلیمان کے بے حد اصرار پر۔ اس کے بعد پنجابی فلموں کی بہت ساری آفرز آتی رہیں لیکن نہیں کیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے پنجابی فلمیں پسند نہیں تھیں بہت اچھی اچھی بھی پنجابی فلمیں بنتی رہی ہیں لیکن میری ترجیحات پنجابی فلمیں تھیں نہیں نہ ہی مجھے اُس وقت پنجابی بولنی اور سمجھنی آتی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایسے کردار کرنے سے منع کر دیتی تھی جن میں مجھے ولگر لباس زیب تن کرنا پڑتا اس کے علاوہ کوشش کیا کرتی تھی کہ زیادہ ناچ گانے والے کردار نہ کروں کیونکہ مجھے ڈانس آتا نہیں تھا۔
بے ہودہ پنجابی فلموں،گانوں اورایکشن نے شائقین کو سینما گھروں سے بھگا دیا۔ جب اسی قسم کی چیزیں بننے کا رواج زور پکڑنے لگا تو شائقین ناراض ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ اب فلمی صنعت کی بحالی ہو رہی یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتی ہاں لیکن کراچی والے لوگ اچھا کام کررہے ہیں۔ آج کل ہمایوں سعید، ماہرہ خان اور مہوش حیات کے علاوہ ڈراموں کے تمام آرٹسٹ اچھا کام کر رہے ہیں سب بہت با صلاحیت ہیں۔
ہمارے دور میں تو اردو تلفظ اور اس کی ادائیگی پر بہت توجہ دی جاتی تھی لیکن آج اس چیز پر ذرا کم ہی دھیان دیا جاتا ہے ٹی وی کی خبروں کو ہی دیکھ لیں افسوس ہوتا ہے کہ اناؤنسرز بعض اوقات بہت ہی غلط لفظ ادا کر رہے ہوتے ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ ان کا تلفظ ٹھیک کروانے کے لیے بندوبست ہونا چاہیے۔
جہاں تک پہلی فلم کے معاوضے کی بات ہے تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی فلم کا معاوضہ پانچ ہزار ملا۔ بہت عرصے تک تو مجھے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کتنا معاوضہ طلب کرنا ہے لیکن آہستہ آہستہ پتہ چلتا گیا۔ باقی میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کبھی فلم انڈسٹری کا حصہ بنوں گی بس وہ کہتے ہیں نا کہ جو قسمت میں ہوتا ہے وہ مل کر رہتا ہے بس میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میری قسمت میں لکھا ہوا تھا کہ میں اداکارہ بنوں ۔
شادی کے بعد صرف محمد علی کے ساتھ کام کرنے کی شرط کیوں رکھی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا مجھے یہی طریقہ سمجھ میں آیا کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو پھرجو ہمارے کام کی نوعیت ہے اس میں تو ہم کئی کئی دن ایک دوسرے سے ملاقات ہی نہ کر پاتے۔ محمد علی نے مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی تھی میں اپنے کیرئیر کے فیصلے کرنے میں آزاد تھی۔ میرے شوہر میرے دوست بھی تھی ہم ایک دوسرے کے مشورے کے ساتھ ہر کام کیا کرتے تھے۔
انہوں نے جب مجھے شادی کی آفر کی تو میں نے فورا ہاں کر دی میرے شوہر نے میری نامکمل ذات کو مکمل کیا، محبت سے میری جھولی اس طرح سے بھری کہ لفطوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ ان کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہ مجھ پہ بطور شوہر رعب نہیں جھاڑتے تھے، نوک جھونک ہوجایا کرتی تھی لیکن نوبت کبھی لڑائی جھگڑے تک نہیں پہنچی تھی۔ ہمارے تعلق کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک کی یادیں میرے دل میں سمائی ہوئی ہیں، انہی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہوں۔
علی زیب پروڈکشن ہاؤس صرف دو فلمیں بنانے تک کیوں محدود رہا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذاتی پروڈکشن کرنے کی وجہ سے ہم دوسروں کی فلمیں نہیں کر پار رہے تھے اور ہر طرف سے گلے موصول ہو رہے تھے کہ آپ ہماری فلم میں کام نہیں کر رہے جب ہم نے یہ چیز دیکھی تو سوچا کہ اتنی محنت بھی کرو پھر بھی گلے شکوے بھی سنو، بہتر ہے کہ ذاتی پروڈکشن کوبند ہی کر دیا جائے لہذا ہم نے فلمیں بنانا بند کر دیں۔
باقی اداکاراؤں کی طرح آپ کریکٹرز رولز میں نظر نہیں آئیں کیوں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے کیرئیر کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک کبھی بھی سائیڈ رولز نہیں کیے۔ سائیڈ رولز میری ترجیحات میں تھے ہی نہیں۔
جہاں تک ٹی وی پر کام نہ کرنے کا سوال ہے تو ٹی وی پر کام کرنا مجھے اپیل نہیں کرتا تھا۔ اُس زمانے میں ڈرامے بے شک بہت اچھے بنتے تھے لیکن بڑی سکرین کے بعد چھوٹی سکرین پر کام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
میں ٹی وی کے انٹرویوز بھی نہیں کرتی اگر ایک بھی انٹرویو کیا تو پھر ستر اسی چینل ہیں ہر کوئی جاننے والا ہے، تو پھر منع نہیں کیا جا سکے گا اور میں پھر ٹی وی پر ہی بیٹھی رہا کروں گی۔ اس سے بہتر ہو گا کہ پھر ٹی وی پر کام ہی کر لیا جائے لہذا میں نے خود کو ٹی وی سے ذرا الگ ہی رکھا ۔
آپ کو بچپن میں سکیچز بنانے کا بہت شوق تھا اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جی بالکل جب میں بہت چھوٹی تھی تو سکیچز بنانے اور پینٹنگ کرنے کا شوق تھا لیکن اس شوق کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا کیونکہ فلموں میں آنے کے بعد مصروفیت ہی اتنی ہو گئی کہ کسی دوسرے شوق کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس کے علاوہ شاعری سے بھی بہت لگاؤ رہا۔ شاعرہ بننا بھی چاہتی تو بن نہ سکتی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری اللہ کی طرف سے ایک آمد کا نام ہے اور انسان کوشش کرکے شاعر نہیں بن سکتا۔
فیض احمد فیض، احمد فراز جیسے دیگر بڑے شعرا کا ہمارے گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہمارے گھر ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد مشاعرہ ہوتا تھا۔ محمد علی کو بہت شوق تھا کہ اس قسم کی محافل سجائی جائیں اب تو کبھی سننے کو ملا ہی نہیں کہ کسی کے گھر میں مشاعرہ ہو رہا ہے۔
فلم ’ارمان‘ نے میری زندگی بد ل کر رکھ دی۔ اس کی کامیابی نے مجھے راتوں رات سٹار بنا دیا۔ میری اس فلم کی اوپننگ فاطمہ جناح نے کی تھی جو کہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ خوشی ہے کہ ایک عرصے تک اس فلم اور اس کے گیتوں کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا رہا۔
بھارت میں بھی جا کر کام کیا۔ فلم کلرک میں کام کرنے کے حوالے سے ہمارے ساتھ کیا یادیں شیئر کریں گی، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس فلم میں کام کرنے کے حوالے سے اچھی اور بری دونوں یادداشتیں ہیں۔ اچھی یہ کہ بھارت میں ہماری خوب مہمان نوازی کی گئی۔ ہم دونوں میاں بیوی وہاں کام نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن منوج کمار نے پانچ برس تک ہماری خوشامدیں کیں آخر کار ہمیں ہاں کرنا پڑی۔
بری یاداشتیں یہ ہیں کہ اس فلم سے ہمارا کردار کاٹ دیا گیا اور سکرین پر جو کام دکھایا گیا وہ دیکھنے والوں کےلیے قابل قبول نہیں تھا۔ منوج کمار کی اس گھٹیا حرکت کی وجہ سے ہمارے دل سے وہ اتر گیا اور فلم کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے تھا تیسرے ہی دن باکس آفس سے فلم اترنا منوج کمار کے منہ پر ایک زور دار تھپڑتھا جو اس نے ہمارے کرداروں کو کاٹ کر کیا۔

No comments:

Post a Comment