Tuesday, October 13, 2020

سکول میں گنجائش نہیں، باجوڑ کے طلبہ کہاں جائیں؟


محمد بلال یاسر 

باجوڑ کے علاقے لغڑئی ماموند میں صرف ایک ہائی سکول ہے، لیکن اس میں گنجائش نہ ہونے کے باعث درجنوں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔




باجوڑ میں ہائی سکول میں داخلے کے خواہشمند طلبہ سکول میں گنجائش نہ ہونے کے باعث داخلے سے محروم ہیں۔ انہیں اس ہائی سکول سے ملحقہ سکولوں سے فراغت کے سرٹیفیکیٹ بھی دیے جا چکے ہیں، مگر پورے علاقے میں ایک ہائی سکول کے باعث اب وہ کہیں اور جا نہیں سکتے اور اس سکول میں انہیں داخلہ مل نہیں رہا۔

رواں ہفتے باجوڑ کے طلبہ مسلسل گورنمنٹ ہائی سکول لغڑئی ماموند آتے رہے مگر سکول میں مزید گنجائش نہ ہونے کے باعث وہ پورا دن گزار کر واپس گھر چلے جاتے ہیں۔ اس دوران محکمہ ایجوکیشن، ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ حکام خواب غفلت میں پڑے رہے۔ بالآخر ان طلبہ نے مجبور ہو کر احتجاجاً مین لغڑئی عنایت کلے شاہراہ کو گورنمنٹ ہائی سکول کے سامنے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔

اس موقعے پر ان درجنوں طلبہ کے ساتھ دیگر طلبہ اور سماجی کارکن بھی شریک ہوئے۔ طلبہ کا احتجاج اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انہوں نے اپنے پرائمری سکولوں سے فراغت کے سرٹیفکیٹ اٹھائے ہوئے تھے اور سکول میں داخلے کے لیے متعلقہ حکام کی توجہ طلب کر رہے تھے۔

مذکورہ گورنمنٹ ہائی سکول لغڑئی ماموند کے پرنسپل شیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت ہمارے پاس سکول میں طلبہ کی تعداد 1400 سے زائد ہے جبکہ سٹاف کی تعداد 10 ہے، پہلے ہی ہم بڑی مشکل سے ان طلبہ کو سنبھال رہے ہیں، مزید طلبہ کے لیے نہ تو سکول میں داخلے کی گنجائش ہے اور نہ ہی میں اپنے اساتذہ پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہوں کیونکہ پہلے ہی وہ بہت بڑے بوجھ کا شکار ہیں۔ کلاسوں میں نہایت رش ہوتا ہے اور بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ملتی۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ’رش کی وجہ سے تعلیم دینے اور سیکھنے کا عمل دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ اتنے رش میں معیاری انداز میں پڑھانا ممکن ہی نہیں۔ یہاں کوئی ساؤنڈ سسٹم بھی نہیں ہے۔ ہم کلاسوں میں لیکچر کے دوران چیختے ہیں جس کی وجہ سے گلا خراب ہو جاتا ہے۔‘

اس حوالے سے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صرف ماموند نہیں بلکہ پورے باجوڑ میں سکولوں میں مزید گنجائش نہ ہونے، عملے اور عمارت کی کمی کے باعث ہمیں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم کوششیں کر رہے ہیں تاکہ مستقل بنیادوں پر یہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مذکورہ سکولوں کی جماعت پنجم میں طلبہ کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے، اب مزید طلبہ کو بغیر عملے میں اضافہ کیے سکول انتظامیہ کیسے سنبھال سکے گی۔ مگر اس کے باوجود ہم نے ان سکولوں کے پرنسپل صاحبان کو احکامات جاری کر دیے ہیں کہ جو بھی ہو ان طلبہ کو داخلے دیے جائیں تاکہ ان کا سال ضائع نہ ہو۔‘

انہوں نے کہا، ’باجوڑ میں تعلیم کے مواقع اور سہولیات بہت کم ہیں۔ ہم سکول کے سٹاف پر اضافی بوجھ ڈال کر زیادہ طلبہ کو داخلہ دلانے کا پابند کرتے ہیں مگر ہمارے پاس اساتذہ اور کلاس رومز کی شدید کمی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو کئی بار تحریری طور پر آگاہ کر رکھا ہے، مگر اب تک اس سلسلے میں ایجوکیشن کے شعبے کے لیے درکار مزید چھ ہزار خالی آسامیاں پُر نہ ہو سکیں اور نہ ہی سکولوں میں عمارت کا اضافہ ہوا۔

طلبہ کو درپیش اس مسئلے کے بارے میں ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ آفسر اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی سب ڈویژن حبیب اللہ وزیر سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کامیابی نہ ہو سکی۔

تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے۔ یہ مسئلہ پورے باجوڑ میں ہر سال سر اٹھاتا ہے، معلوم نہیں کب حکمران جاگیں گے تاکہ مسئلے کا حل مستقل بنیادوں پر ممکن ہو سکے۔ 

No comments:

Post a Comment