شہید رانی اور مفاہمتی سیاست
تحریر: شاہد نذیر
محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت دنیا کے ان ممتاز رہنماؤں کی طرح لامتناہی ہے کہ جن پہ لکھتے ہوئے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔شہید رانی کو انکی سالگرہ پہ خراج تحسین پیش کرنے کیلئے قوم کی نئی نسل کو خصوصا یہ بتانا ضروری ہے کہ انکی مفاہمتی سیاست و درگزر کی کیا اہمیت تھی اور ہے۔
شہید رانی تمام قیدوبند کی صعوبتیں،باپ و بھائ کی موت کے اندوہناک غم،اور جلاوطنی کے بعد جب ایک تحریک بن کر اس ملک میں واپس آئیں اور عوام نے جس والہانہ انداز میں انکو استقبال دیا تب اس ملک کی “اصل قوتوں” کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے آئی جے آئی کی صورت اپنی سیاسی سازشی بساط بچھادی اور یوں اس ملک میں نووارد جمہوریت کو پراگندہ کردیا جو سلسلہ آج اس سلیکٹڈ دور کی صورت قوم کے سامنے ہے،اس سے بیشتر “آر اوز” انتخابات بھی سامنے ہیں
نوے کی دہائ میں شہید رانی کو طرح طرح کے فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا،نظربندیوں کا سامنا کرنا پڑا،شوہر کی اذیت ناک قیدوبند دیکھنا پڑی،اخلاقیات سے گری ہوئ حرکتیں سہنا پڑیں مگر وہ ایک نہتی لڑکی ان تمام سیاسی،فوجی،مذہبی اور منافقانہ قوتوں کے سامنے ڈٹ کر عوام کی سیاست کرتی رہیں۔بار بار حکومتیں برطرف کی جاتی رہیں اور اپنے ہی دور حکومت میں انکے شیر صفت بھائ کو بھی ان سے چھین لیا گیا اور بالآخر حکومت برطرف کرکے ایک اور دھاندلی زدہ حکومت مسلط کردی گئ،یہ دور شہید رانی کیلئے سخت ترین تھا کہ وہ بچوں کو لے کر جلاوطنی میں چلی گئیں کہ کم از کم بچوں کی تعلیم و تربیت پہ برا اثر نا پڑے۔
وقت گزرتا رہا اور انکے سیاسی مخالفین قدرتی انصاف کے ہاتھوں انجام کو پہنچتے رہے،اسی اثناء میں وہ اپنے سیاسی حریف میاں نواز شریف کی جانب تمام باتیں بھلا کر معاف کرکے مفاہمت کیلئے بڑھیں اور اس مفاہمت کو “چارٹر آف ڈیموکریسی” کا عملی جامہ پہنایا جو آئین کے بعد سب سے عمدہ سیاسی،معاشی و معاشرتی معاہدہ ہے۔
۲۰۰۷ میں آمر جب “این آر او” کا معاہدہ کرنے پہ مجبور ہوا تو شہید رانی کی ہی واپسی سے میاں نواز شریف کی واپسی ممکن ہوئ،نئی نسل کو این آر او کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے کہ یہ شہید رانی کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ ایک قدم تھا ملکی سیاست کو مفاہمت کی جانب بڑھانے کا۔جب ملک واپس آئیں تو ہر سیاسی قائد کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا،میاں نواز شریف کو بار بار انتخابات کے بائیکاٹ سے باز رکھا اور ملک کے کونے کونے میں جلسے کئے عوام کو جگایا،آمر کو وردی اتارنے پہ مجبور کیا،میڈیا کی آزادی جو آمر نے سلب کررکھا تھی انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ہر کیمپ کا دورہ کیا،آمرانہ قوتوں کو للکارا،ججوں کی نظربندی کیخلاف عملی جدوجہد کی اور غالبا یہی وہ نکتہ تھا جب انکی جان کے درپے قوتوں نے انہیں ہٹانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
شہید رانی کی ناگہانی شہادت کے بعد مردحر صدر آصف علی زرداری نے انکی مفاہمت کو آگے بڑھایا،جماعتی مفادات کو عظیم تر قومی سیاسی مفادات پہ ترجیح دی۔ پیپلزپارٹی آج بھی شہید رانی کی سیاسی مفاہمت پہ کاربند ہے کہ نوے کی دہائ کے زخم تازہ نہیں کئے جاسکتے اور ہم آج شہید رانی کی سالگرہ پہ اپنی بی بی کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ انکے لخت جگر بلاول بھٹو زرداری کے شانہ بشانہ انکی مفاہمت و سیاسی فلسفے کو آگے بڑھاتے رہیں گے.
No comments:
Post a Comment