ادب برائے ادب کی بحث تو سن رکھی تھی، اب حکومت برائے حکومت دیکھ رہے ہیں۔
زمِ ناز سے قاصد دو سندیسے لایا ہے۔ پہلے میں لکھا ہے، عزیز ہم وطنو، حالات بہت سنگین ہیں آپ گھروں میں رہیں اور احتیاط کریں۔ دوسرے میں نوید سنائی گئی ہے کہ عزیز ہم وطنو آپ کے لیے سیاحتی مقامات کھول دیے گئے ہیں۔
عزیز ہم وطن اب بیٹھے سوچ رہے ہیں گھروں میں رہیں یا سیاحتی مقامات کو روانہ ہو جائیں۔ میر نے کہا تھا، ’صد رنگ مری موج ہے، میں طبع رواں ہوں۔ ‘
سوال یہ ہے حکومت کے پاس کرونا (کورونا) سے نبٹنے کے لیے کوئی پالیسی ہے یا یہ محض طبع رواں کا نام ہے۔ موج و آشوب میں تلاطم اٹھا تو قوم سے ایک خطاب فرما دیا؟
حکومت کسی درویش کا تصرف نہیں ہوتی، حکومت انتظامی تحرک کانام ہے۔ اس کا فیصلہ غلط یا درست ہو سکتا ہے لیکن وہ جو بھی فیصلہ کرتی ہے، بڑی یکسوئی کے ساتھ اور کسی ابہام کے بغیر دو جمع دو چار کی طرح کرتی ہے۔ حکومت اپنے اہداف اور اپنی پالیسی میں بہت واضح ہوتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے اس نے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ کورونا نے اس سماج اور ہماری معیشت کی کمر دہری کر دی ہے لیکن افتادگان خاک کو کچھ خبر نہیں حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ سیموئل بیکٹ کے ڈرامے Waiting for Godot میں بھی لوگ انتظار میں تھے، عمران خان کے نئے پاکستان میں بھی لفافہ خط غبار سے لکھا جاتا ہے۔
حکومت کہاں ہے؟ کیا چاہتی ہے؟ اس کی پالیسی کیا ہے؟ لائحۂ عمل کیا ہے؟ ترجیحات کیا ہیں؟ سوالات کا دفتر کھلا ہے لیکن جواب معلوم نہیں۔ حکومت نے خود ہی لاک ڈاؤن کیا اور پھر جناب وزیر اعظم نے خود ہی بتا دیا کہ وہ تو لاک ڈاؤن نہیں چاہتے تھے، یہ تو حکمران اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا۔ سوال یہ ہے یہ حکمران اشرافیہ کون ہے جس نے جناب وزیر اعظم سے بالا ہی بالا لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا؟
اگر اشارہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی داخلی معاملات میں خود مختاری کی جانب تھا تو پنجاب اور کے پی کے میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور دستیاب اطلاعات کے مطابق، عمران خان وزارت عظمی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی سربراہی کے منصب پر بھی فائز ہیں وزیر اعظم لاک ڈاؤن کے حامی نہیں تھے تو ’حکمران اشرافیہ‘ نے کے پی کے اور پنجاب میں کیسے لاک ڈاؤن کر دیا؟ حکومت فیصلے کرتی ہے اور پھر ان کی ذمہ داری لیتی ہے۔ یہاں حکومت ہاتھوں کا کام مژگاں سے لے رہی ہے۔ یعنی ’ذوق کے ہے سامنے، لافِ غزل خوانی دروغ۔‘
ہم نے دو ماہ لاک ڈاؤن کیے رکھا۔ اس کی ایک معاشی قیمت تھی جو قوم نے ادا کی۔ لیکن حیران کن طور پر عید سے چند دن پہلے سارے بازار کھول کر دو ماہ کی یہ ساری مشقت اپنے ہاتھوں سے گویا چولہے میں ڈال دی گئی۔ اس بوڑھی عورت کی طرح جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اسے کاٹ کاٹ کر پھینک دیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کرونا کے کیسز اب بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
بعد از خرابی بسیار اب ایک نئی ایس او پی متعارف کرائی جا رہی ہے اور وہ بھی غلطی ہائے مضامین کے سوا کچھ نہیں۔ مارکیٹیں، کاروباری مراکز اور دکانیں اب ہفتے میں پانچ دن کھلا کریں گی۔ سوال یہ ہے انہیں کھولنا ہی ہے تو پانچ دنوں میں کیا حکمت ہے۔ کیا کرونا کے ساتھ کوئی این آر او ہو گیا ہے کہ پانچ دن وہ کسی کو کچھ نہیں کہے گا اور چھٹے اور ساتویں دن اگر کسی نے دکان کھول لی تو کرونا کا استحقاق مجروح ہو جائے گا؟
جس احتیاط کے ساتھ پانچ دن لوگ ان مارکیٹوں میں آ سکتے ہیں اسی احتیاط کے ساتھ سات دن کیوں نہیں آ سکتے؟ کیا احتیاط نے بھی کوئی سندیسہ بھیجا ہے کہ میں صرف پانچ دن دستیاب رہوں گی اور ویک اینڈ پر میں رخصت پر چلی جاؤں گی؟کیا دنیا میں کہیں کوئی ایسی تحقیق سامنے آئی ہے کہ کرونا ’ویک اینڈ‘ پر زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے؟
سماجی رویوں کے اعتبار سے بھی یہ فیصلہ غیر منطقی ہے۔ دکانیں اور مارکیٹیں اگر سارا ہفتہ کھلیں گی تو سوشل ڈسٹنسنگ کے اصولوں پر عمل کرنا آسان ہو گا اور جسے جب موقع ملے گا جا کر خریداری کر لے گا۔ یہ دو دن بند رہیں گی تو ہفتے کے پہلے اور آخری دن ہجوم بڑھ جانے کا خطرہ رہے گا۔ سچ تو یہ ہے اس فیصلے کے حق میں کوئی طبی، انتظامی، عقلی، سماجی اورمعاشرتی دلیل موجود نہیں ہے۔ ان فیصلوں کی شان نزول اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ حکمرانی کا دعویٰ سند رہے۔ جس طرح متحرک اور فعال سیاسی زندگی گزارنے والے عارف علوی ایوان صدر کے ماحول کی یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں تو گاہے باہر نکلتے ہیں اور ’رعایا میں گھل مل جاتے ہیں‘ ایسے ہی جب حکومت کو کچھ سجھائی نہیں دیتا وہ ایک اور فیصلہ فرما دیتی ہے۔ ادب برائے ادب تو سن رکھا تھا، حکومت برائے حکومت پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔
کرونا ٹائیگر فورس کا قصہ ہی دیکھ لیجیے۔ دو ماہ جب کاروبار بند تھے اور بھوک غریب کی دہلیز پر جا بیٹھی تھی اس فورس کا کہیں نام و نشاں نہ تھا اور اب معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں اور کاروبار، دکانیں اور مارکیٹیں کھلنے لگی ہیں تو کورونا ٹائیگر فورس بھی داد شجاعت دینے آ پہنچی ہے۔ تقاریب برپا ہو رہی ہیں، حلف لیے جا رہے ہیں اور سماجی دوری اور ماسک کی ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوٹو سیشن ہو رہے ہیں۔ یہ ساری سرگرمی بہت اچھی اور یہ جذبے بہت نیک سہی مگر یہ کرونا ریلیف ٹائیگر فورس اب کرے گی کیا؟ قوم کو ا گر غیر اعلانیہ طور پر ’اجتماعی مدافعت (ہرڈ امیونٹی) ہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو اس میں کرونا ٹائیگر فورس کی کیا افادیت ہو گی؟ جب سواری نے اپنے سامان کی حفاظت خود ہی کرنا ہے تو یہ اہتمام کس لیے؟
سوال وہی ہے: حکومت کے پاس کرونا سے نبٹنے کے لیے کوئی پالیسی ہے یا یہ محض طبع رواں کا نام ہے۔ موج و آشوب میں تلاطم اٹھا تو قوم سے ایک خطاب فرما دیا؟
No comments:
Post a Comment