Wednesday, April 1, 2020

لاک ڈاؤن ہے یا نہیں اور عمران خان کی منطق

جن غریبوں اور مزدوروں کی فکر میں آپ دن رات دبلے ہو رہے ہیں وہ گذشتہ ایک ہفتے سے گھروں میں محصور ہو کر بےروزگار ہوئے پڑے ہیں۔

جب سے مملکت خداداد میں کرونا وائرس کی وبا آئی ہے عمران خان نے پوری دنیا سے مختلف ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ لاک ڈاؤن نہیں کرنا۔ اگر ایسا کیا تو غریب مزدوروں کا کیا ہوگا؟
سب سے پہلے تو عمران خان سے یہ سوال کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ وزیر اعظم  صاحب پہلے تو وہ حدود بتا دیں کہ جہاں آپ کی حکومت ہے اور جہاں پر آپ لاک ڈاؤن نہیں چاہتے۔ دستیاب معلومات کے مطابق تو اس وقت سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت گلگت بلتستان میں بھی لاک ڈاؤن ہے۔
وہاں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد جاری ہے۔ اکثر کارخانے، بازار، تجارتی مراکز، سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، مدارس، ہوٹل، ریسٹورانٹ، ورکشاپس اور دفاتر سمیت نجی اور سرکاری تعمیراتی کام بھی بند پڑے ہیں۔ شہروں کے مابین سفر پر پابندی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے۔ شہر کے اندر ذاتی گاڑی میں بھی دو سے زیادہ افراد کو سفر کی اجازت نہیں ہے۔ گھر کے کسی بھی فرد کو دن میں صرف دو مرتبہ گھر سے کسی ضرورت کے لیے  باہر جانے کی اجازت ہے۔ تمام موٹرویز ہائی ویز سمیت شہر کی اندرونی سڑکوں پر بھی پولیس اور فوجی جوان تعینات ہیں۔
جن غریبوں اور مزدوروں کی فکر میں آپ دن رات دبلے ہو رہے ہیں وہ گذشتہ ایک ہفتے سے گھروں میں محصور ہو کر بےروزگار ہوئے پڑے ہیں۔ آپ جس خیالی دنیا میں رہتے ہیں یعنی بنی گالہ اور وہی وزیر اعظم ہاؤس جہاں اب تک عالمی معیار کی یونیورسٹی بن جانا چاہیے تھی صرف وہاں لاک ڈاؤن نہیں۔ مگر ملک کے طول وعرض میں زندگی کا پہیہ تقریباً رک چکا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آپ کا اختیار شاید صرف بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک محدود ہوچکا ہے ورنہ آپ ایسے بیانات دینے اور لاک ڈاؤن اور کرفیو کی تفریق سمجھانے کے لیے تین مرتبہ قوم سے خطاب کی زحمت کیوں کرتے؟ حالانکہ آپ کے بار بار بیانات اور قوم سے خطابات نے یہ بات آشکار کر دی کہ آپ خود کرفیو اور لاک ڈاؤن میں کنفیوز ہیں۔
جناب والا! آپ کو اس بات پر اب یقین کر لینا چاہیے کہ آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی گذشتہ ایک ہفتے سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوچکا ہے۔ اور آپ جن پابندیوں اور گھر میں نظر بندیوں کا ذکر کرتے ہیں اس کو عام اصطلاح میں کرفیو کہا جاتا ہے۔
باقی ملک تو آپ کے آبائی شہر اور حلقے میانوالی جتنا خوش نصیب بھی نہیں ہے۔ ایک طرف ملک بھر کے مزدوروں کو گھروں میں بٹھا کر سرکاری تعمیراتی کام تو درکنار عوام کے ذاتی کام بھی بند ہیں لیکن دوسری جانب ڈپٹی کمشنر میانوالی خصوصی ہدایات کے تحت تعمیراتی میٹیرئیل اور مزدوروں کو ان پابندیوں سے استثنا دینے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ تاکہ کم از کم آپ کے پاکستان کو بنی گالہ اور پی ایم ہاؤس سے میانوالی تک دراز کیا جاسکے۔ اور ملک میں اصطلاحی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک نہیں دو پاکستان بنائے جاسکیں۔
وزیر اعظم صاحب! رات ساڑھے نو بجے آپ قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کا اعلان فرماتے ہیں اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رات دس بجے مختلف ٹی وی پروگرامز میں  پی ٹی آئی کے حکمرانی والے تینوں صوبوں کے وزیر اور مشیر فخر سے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا ورنہ اب تک صورت حال کنٹرول سے باہر ہوتی۔ خدارا عمران خان صاحب اپنے ذاتی انا کے خول سے باہر نکل آئیں اور لاک ڈاؤن اور کرفیو کے فرق کی اپنی کنفیوزن قوم کو منتقل کرنے سے اجتناب کیجیے۔
اگر آپ صرف اس وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعتراف نہیں کر رہے ہیں کہ بے چارے غریبوں اور مزدوروں کو کچھ دے نہیں سکتے ہیں تو یاد رکھیے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں غریبوں پر لاک ڈاؤن کے اثرات شروع ہوچکے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں پر آپ کے روز روز کی زبانی جمع خرچ والی دھمکیاں بھی بےاثر ثابت ہو رہی ہیں۔ کوئی  بھی آپ کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر آپ واقعی خود کو لیڈر سمجھتے ہیں تو واضح دوٹوک اور بروقت فیصلے کیجیے اور اپنے فیصلوں کی بھرپور ذمہ داری لیں۔ فیصلے ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں غلط بھی۔ مگر قومی اور بین الاقوامی سطح کے رہنما مشکل حالات میں مہینوں تک شش و پنچ میں نہیں رہتے۔
حکومت سنبھالنے کے ابتدائی چھ ماہ آپ یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے یا نہیں جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی معیشت بھگت رہی ہے۔ اب ایک مہینے سے آپ لاک ڈاؤن اور کرفیو کے مابین پنڈولم بنے ہوئے ہیں۔
آپ صرف اتنا کیجیے کہ غریبوں پر اس کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے ایک تو ٹائیگر فورس اور کھانا پہنچانے جیسے لانگ ٹرم  خیالی منصوبوں کی بجائے غریبوں کو ان کے موبائل نمبر، ایزی پیسہ، بنک اکااؤنٹ یا سابق لوکل باڈیز ناظمین کی وساطت سے فوری نقد رقم فراہم کریں۔ مزید یہ کہ تعمیراتی کام اور اس سے متعلقہ دکانوں سمیت وہ پیداواری یونٹ (کارخانے) کھولنے کے احکامات جاری کر کے اس پر عمل درآمد کیا جائے جو حفاظتی اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے مزدوروں کو روزگار دے سکتے ہیں۔ ورنہ عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارے وزیر اعظم ایک پاکستان میں ہیں جہاں لاک ڈاؤن نہیں اور باقی 22 کروڑ عوام دوسرے پاکستان میں جہاں وزیر اعظم کے اعتراف کے بغیر جاری لاک ڈاؤن نے ان کا جینا محال کر دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment