Sunday, March 1, 2020

عورت مارچ کا سن کر مرد ناراض کیوں ہوتے ہیں؟



انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ سے گفتگو میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک عام آدمی کی زندگی میں عورت مارچ کی کتنی گنجائش ہے؟


پاکستان کی مایہ ناز ماہر تعلیم، تاریخ دان اور ماہر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ فارمن کرسچن کالج میں تاریخ پڑھاتی رہیں اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی سابق پرنسپل رہ چکی ہیں۔
انہوں نے بطور چیئرپرسن ’نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن‘ خدمات سرانجام دیں۔ نیز پنجاب کی سابق نگران صوبائی وزیر بھی رہیں۔ جنوبی ایشیائی معاشرتی امور میں انہیں مہارت حاصل ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے گفتگو میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ عورت مارچ کیا ہے اور ایک عام آدمی کی زندگی میں اس کی کتنی گنجائش ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو: عورت مارچ کو ایک عام مرد کیسے اور کیوں برداشت کرے؟
ڈاکٹر عارفہ: جب ایک صنف کی حق تلفی ہو گی اور دوسرے کی نہیں، تو انہیں دوسرے کا نقصان سمجھ میں نہیں آئے گا۔ انسان ہونے کے ناطے ہمارے حقوق اور فرائض برابر ہونے چاہییں۔
انڈپینڈنٹ اردو: عورت مارچ کے پوسٹرز اور بینرز پر عام مرد بھڑک جاتا ہے، کیا وہ سب کچھ ضروری ہے؟
ڈاکٹر عارفہ: مرد تو ویسے ہی بھڑک جاتے ہیں۔ اُس کے لیے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں۔ بات یہ ہے کہ عورتوں کے اندر جو گھٹن ہے وہ غصہ بن کے نکل رہی ہے۔
مرد نے عورت کو جسم کے سوا کچھ نہیں سمجھا، اسے ناقص العقل سمجھا ہے۔ جس دن مرد عورتوں کو فکری اختلاف کا حق دے دیں گے اس دن یہ سب چیزیں ختم ہو جائیں گی۔
انڈپینڈنٹ اردو: ہماری بہنیں، بیٹیاں، بیویاں، دوست، کولیگز جو بھی اس مارچ میں شرکت کرتی ہیں، کیا ان کے آس پاس کے مرد اس چیز سے گھبرا نہیں جائیں گے اور ان سے بات کرتے ہوئے بھی نہیں ڈریں گے کہ کل کو یہ ہماری کسی بات پر پوسٹر لگا دیں گی؟
ڈاکٹر عارفہ: ایسا نہیں ہو گا۔ علما نے معاشرے کو دو قاشوں میں کاٹ دیا ہے۔ انہوں نے ہر کام کے لیے خدا کی بجائے مردوں کی اجازت ضروری قرار دے دی ہے۔
ان تصویروں، جملوں اور مارچ میں شرکت سے عورت کا غصہ ظاہر ہے۔ آپ کو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر روز سات، آٹھ برس کی چھوٹی بچیوں کے ریپ کی خبریں اخبار میں پڑھ کر بحیثیت عورت کیا مجھے غصہ نہیں آئے گا؟ کیا میں یہ نہیں کہوں گی کہ جو میرا ہے وہ میرا ہے، وہ زبردستی نہیں لیا جا سکتا؟
انڈپینڈنٹ اردو: کیا یہ مسائل ان مارچوں سے حل ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عارفہ: اس کا حل بہت آسان ہے۔ دونوں فریقین اپنی جگہ حساس ذہانت کو فروغ دیں۔

No comments:

Post a Comment