بیرسٹر عامر حسن
قوموں کی تاریخ میں حکمران آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کرشماتی قیادت ہمیشہ نایاب ہوتی ہے، 5جنوری ایسے کرشماتی رہنما کا یوم پیدائش ہے جس نے پاکستان کے جمہور کو رعایا سے عوام بنایا اور محکوموں کو حق حاکمیت دیا اور عوام الناس نے اپنے محسن کو قائدِ عوام کا رتبہ عطا کیا۔پاکستان کو علامہ اقبال کی فکر اور محمد علی جناح کے وژن کی مشترکہ کاوش سمجھا جاتا ہے اور تحریک پاکستان میں محمد علی جناح کی جدوجہد علامہ اقبال کی فکر ہی کی مرہون منت تھی۔ قیام پاکستان سے قبل ہی اقبال انتقال کر گئے اور پاکستان کے قیام کے اگلے سال قائداعظم کی رحلت نے ملک کو فکری اور عملی قیادت سے محروم کر دیا لہٰذا تقریباً 25سال تک پاکستان کے لوگوں کو محکوم ہی سمجھا گیا اور انہیں ریاست کے معاملات سے لاتعلق رکھا گیا۔ معاشی اور سماجی انصاف ناپید ہوتا گیا۔ بے چینی بڑھنے لگی اور تقسیم کا عمل تیز تر ہو گیا لہٰذا فلاحی ریاست کا تصور دھندلانے لگا۔ خالق کو اپنی مخلوق پر رحم آیا اور پاکستان کے لوگوں کو بھٹو شہید جیسا قائد میسر آیا جس نے اقبال کی فکر اور جناح کے وژن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ بھٹو شہید نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے کرشماتی نعرہ دیا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ یعنی پاکستان کے عوام اور صرف عوام ہی اس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اس طرح پہلی دفعہ پاکستان کے لوگوں کو رعایا سے عوام بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا جس سے غریب جاگنے لگے اور کاخِ امراء کے درو دیوار ہلنے لگے۔ مزدور، کسان، طالبعلم، خواتین، وکلا، دانشور نیز پسے اور کچلے ہوئے تمام طبقات اپنی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے لگے اور تقسیم کی ایک واضح لکیر نظر آنے لگی۔ ایک طرف بااختیار حاکم طبقہ تھا اور دوسری طرف بے اختیار محکوم طبقہ۔ ان بے اختیاروں نے بااختیاروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ مزدور سرمایہ دار کے مقابل کھڑا تھا، کسان جاگیردار کا ظلم مزید سہنے سے انکاری تھا، طالبعلم جہل کو جاننے سے انکار کر رہا تھا، خواتین تنگ نظری سے نبرد آزما تھیں، دانشور، تاریک و بہیمانہ روایات کا قلع قمع کرنے کو تیار تھے، پسے اور کچلے ہوئے طبقات نے استحصالی طبقات سے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔
قائد عوام نے اس بغاوت کو نظام کی حد تک رکھا اور ریاست کے مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ جمہور کی اس تحریک کو طاقت کے بجائے جمہوریت کے ذریعہ راستہ دیا جائے یوں پاکستان میں پہلی دفعہ عوام کو ’ایک شخص ایک ووٹ‘ کا حق ملا۔ بُلٹ کے بجائے بیلٹ کا راستہ چنا گیا۔ نقش کہن، سلطانی جمہور کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور بھٹو کی قیادت میں عوام نے دو آمروں کو رخصت کرکے ملک کو پہلا جمہوری نظام دیا۔ ریاست کو پہلا متفقہ آئین دیا اور آئینی طور پر عوام کو اس کا حق حکمرانی عطا کیا جس کی بدولت عوام ہی طاقت کا سرچشمہ قرار پائے اور پاکستان میں حقیقی معنوں میں عوامی راج قائم ہوا۔ملک میں جمہوریت کے قیام کے بعد سب سے ضروری اور نازک معاملہ معاشی مساوات کے قیام کا تھا کیونکہ شہید بھٹو نے بلھے شاہ کے لوکائی کے لئے پیغام ’’گلی، جلی ، کلی کو اپنا نعرہ بنایا تھا کہ مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی، کپڑا اور مکان۔ لہٰذا شہید بھٹو کے مطابق مل اور فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور کیسے منافع میں حصہ دار نہ تھا۔ کسان کیوں کھیت کی پیداوار کا حق دار نہ تھا یعنی محنت کش کو کیسے اس کی محنت کے صلے سے محروم رکھا جا سکتا تھا۔ اسی نظام کے خلاف علامہ اقبال بھی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
شہید بھٹو نے فرسودہ نظام کے ساتھ ساتھ تعفن زدہ روایات کا بھی خاتمہ کیا، شہید بھٹو درخشاں مستقبل کی بات کر رہے تھے تاکہ عوام کو پستیوں سے نکال کر عظیم لوگوں کے شایانِ شان زندگی گزارنے کا راستہ سجھایا جائے۔ شہید بھٹو کے نزدیک قوم کو درپیش حقیقی مسائل سیاسی اور معاشی تھے مذہبی نہیں کیونکہ استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ دونوں ایک ہی مذہب کے پیروکار تھے، لہٰذا شہید بھٹو نے ان رجعت پسند قوتوں جو اپنے آپ کو مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتی تھیں، کی اجارہ داری ختم کی۔ ردِ انقلاب کی یہ تمام قوتیں یکجا ہو گئیں اور 40سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی بھٹو ازم کو ختم کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ کبھی بھٹو کو کافر قرار دیا جاتا ہے، کبھی غدار اور آخرکار اس کو قاتل ٹھہرایا جاتا ہے لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ کافر کے بجائے شہید بھٹو کو عالم اسلام کی قیادت کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ غدار کے بجائے تاریخ شہید بھٹو کو آئین کا خالق اور ایٹم بم دینے پر بیرونی خطرات سے ملک بچانے پر وطن پرست قرار دیتی ہے۔ قتل کا مجرم قرار دیے جانے کے باوجود تاریخ اس فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔ تاریخ کی عدالت میں بھٹو سرخرو قرار پاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے قائدین کو شہید کرکے عوام کو سیاسی بصیرت سے محروم کیا جاتا ہے لیکن بھٹو ازم کی موجودگی ان کو بے چین کئے رکھتی ہے کیونکہ آپ کسی فرد کو قتل کر سکتے ہیں مگر اس کے نظریے کو نہیں۔
No comments:
Post a Comment