Friday, January 31, 2020

مجھے جیل میں زنجیریں باندھ کر رکھا جاتا تھا: آسیہ بی بی


آسیہ بی بی نے بدھ کو فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والی کتاب ’بالآخر آزاد‘میں اپنی گرفتاری، قید میں حالات اور نئی زندگی میں ایڈجسٹ ہونے کی مشکلات کے بارے میں بات کی ہے۔

 توہین مذہب کے الزام سے بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی نے کینیڈا منتقل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ دوران اسیری ’آنسو ہی ان کے واحد ساتھی ہوا کرتے تھے۔‘
کینیڈا پہنچنے کے بعد فرانسیسی صحافی اینا ایسابل تولے، جو آسیہ بی بی پر کتاب لکھ چکی ہیں، نے ان سے ملاقات کی۔ اینا ایسابل تولے واحد صحافی ہیں جو ان سے اب تک مل سکی ہیں۔ ایسابل ماضی میں کینیڈا میں مقیم تھیں اور انھوں نے یہاں سے آسیہ کی رہائی کے لیے مہم چلائی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آٹھ سال تک سزائے موت کی منتظر رہنے کے بعد اب آسیہ بی بی نے ملک چھوڑنے کے بعد پہلی مرتبہ لب کشائی کی ہے۔ انھیں 2010 میں ایک عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی لیکن سپریم کورٹ نے ڈرامائی انداز میں 2018 میں انھیں بری کر دیا۔ وہ اب کینیڈا میں کسی نامعلوم مقام پر رہتی ہیں۔
فرانسیسی زبان میں بدھ کو شائع ہونے والی کتاب ’بالآخر آزاد‘ میں آسیہ بی بی نے اپنی گرفتاری، قید میں حالات، آزادی سے ملنے والی راحت اور نئی زندگی میں ایڈجسٹ ہونے کی مشکلات کے بارے میں بات کی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ اس سال ستمبر میں شائع ہو گا۔
آسیہ بی بی کا کہنا تھا: ’آپ کو میڈیا کے ذریعے میری کہانی کے بارے میں پہلے سے معلوم ہے، لیکن آپ میری روزانہ کی اسیری میں زندگی اور نئی 
زندگی کے بارے میں کوئی ادراک نہیں رکھتی ہیں۔
تاریکیوں کی گہرائی
آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ جنونیت کی قیدی بن گئی تھیں اور ’قید میں آنسو ہی میرے واحد ساتھی تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بدحال جیلوں میں انھیں زنجیروں میں رکھا جاتا تھا جہاں دیگر قیدی جملے کستے تھے۔ ’میری کلائیاں جل رہی تھیں اور سانس لینا مشکل تھا۔ میری گردن کے گرد آہنی کالر لگایا گیا تھا جسے محافظ پیچوں سے تنگ کر سکتے تھے۔
’میں ایک لمبی زنجیر گندے فرش پر گھسیٹ رہی ہوتی تھی۔ یہ میرے ہاتھوں میں پڑی زنجیروں کے ساتھ جڑی ہوتی تھی اور مجھے کتے کی طرح کھینچا جا سکتا تھا۔ میرے اندر کا خوف مجھے تاریکیوں کی گہرائی میں لے جاتا تھا۔ ایک چمٹا ہوا خوف جو مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔‘
دیگر کئی قیدیوں نے کبھی رحم ظاہر نہیں کیا۔ ’میں عورتوں کی چیخوں سے حیران ہو جاتی تھی۔ کئی عورتیں چیخ چیخ کر کہتیں، ’اسے پھانسی دو۔‘
’کس قیمت پر؟‘
’میری آزادی کے بعد بھی (مسیحیوں) کے لیے ماحول تبدیل نہیں ہوا اور مسیحی کسی بھی قسم کے ردعمل کی توقع کر سکتے ہیں۔ ان کے سروں پر تلوار لٹکتی رہتی ہے۔‘
اب جب کہ کینیڈا نے انھیں محفوظ اور زیادہ یقینی مستقبل دیا ہے، آسیہ بی بی کو اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کی اپنے ملک واپسی کبھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ ’اس نامعلوم ملک میں، میں ایک نئے آغاز، غالباً ایک نئی زندگی کے لیے تیار ہوں، لیکن کس قیمت پر؟
’میرا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب میں اپنے باپ اور خاندان کے دیگر افراد کو ملے بغیر چلی آئی۔ پاکستان میرا ملک ہے۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے لیکن میں تمام زندگی کے لیے جلا وطن ہو گئی ہوں۔‘
آسیہ بی بی نے کتاب میں خود پر توہین مذہب کے لگے الزام سے انکار کو دہرایا اور خوف کا اظہار کیا کہ مسیحی اقلیت کے خلاف مقدمات اب بھی جاری ہیں۔

No comments:

Post a Comment