کوٹے کا نظام آبادی کی بنیاد اور پسماندہ علاقوں کو مناسب نمائندگی دینے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا لیکن مسلح افواج کے لیے کوٹے کی کوئی تسلی بخش وجہ بیان نہیں کی گئی تھی۔
پاکستان میں اعلیٰ سول سرکاری ملازمتوں میں تمام وفاقی اکائیوں کی آبادی اور پسماندگی کے درجے کی بنیاد پر شمولیت یقینی بنانے کے لیے کوٹے کا نظام ہمیشہ سے کسی نہ کسی شکل میں نافذ رہا ہے جس میں آبادی میں اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں ہیں۔
آبادی کے علاوہ پسماندہ علاقوں کو مناسب نمائندگی دے کر اور ان میں کسی قسم کا احساس محرومی ختم کر کے وفاق کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں کوٹے کا نظام اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس طریقہ کار کو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے سیاہ فام شہریوں کو متناسب نمائندگی دینے کے لیے کئی محکموں میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمتوں میں فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اثباتی عمل اب بھی امریکہ میں رائج ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں وہاں کی عدالتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں بھی وفاق کی اعلیٰ سرکاری نوکریوں میں بعض پسماندہ علاقوں اور مذہبی گروپوں کو کوٹے کی بنیاد پر مختص ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ انہی بنیادوں پر صوبہ سندھ میں کوٹے کو شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ دیہی سندھ کا علاقہ بھی وفاق کی اعلیٰ ملازمتوں میں اپنا جائز حصہ حاصل کر سکے۔
اعلیٰ سول ملازمتوں میں مسلح افواج سے بھی براہ راست تقرریاں قیام پاکستان سے ہی شروع ہو گئی تھیں۔ یہ تقرریاں وقتا فوقتاً ضرورت کی بنیاد پر ہوتی تھیں اور مسلح افواج کے افسران کو اعلیٰ سول سروس کے سخت امتحانی نظام سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔ سول سروس کی عسکریت کا سلسلہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں تسلسل سے شروع ہوا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں اس کو سالانہ مشق میں تبدیل کر دیا گیا اور مسلح افواج کے لیے دس فیصد کا مستقل کوٹا مخصوص کر دیا گیا۔
آغاز میں یہ کوٹا تمام وفاقی ملازمتوں پر لاگو کیا گیا لیکن جلد ہی اسے تین بڑے سروسز گروپس یعنی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ (جسے اب پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے نام سے جانا جاتا ہے) فارن اور پولیس سروس کے لیے مختص کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے نہیں بتایا گیا کہ صرف یہی تین گروپ کیوں مسلح افواج کے افسران کے لیے مناسب سمجھے گئے اور دوسرے پیشہ ورانہ گروپ یعنی کسٹم، انکم ٹیکس، اکاؤنٹس، ریلوے، پوسٹل، ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ اور انفارمیشن، اس لطفِ خاص سے کیوں کر محفوظ رہے۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کوٹے کا نظام آبادی کی بنیاد اور پسماندہ علاقوں کو مناسب نمائندگی دینے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا لیکن مسلح افواج کے لیے کوٹے کی کوئی تسلی بخش وجہ بیان نہیں کی گئی۔ مسلح افواج کے افسران انتہائی جامع اور مشکل تربیتی نظام سے گزرتے تھے۔ فوج میں تمام علاقوں کی بلاامتیاز نمائندگی ہوتی تھی۔ مسلح افواج کے افسران کا مشاہرہ بھی تقریباً وہی ہوتا تھا جو سول میں سرکاری ملازمین حاصل کر رہے تھے اس لیے وہ نہ تو پسماندہ گروپ میں شامل تھے جسے ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دی جاتی اور نہ ہی مالی مشکلات کا شکار تھے۔ اس لیے دس فیصد کوٹے کے اجرا کا کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں تھا۔
بعض عذر خواہوں کی نظر میں اس کا مقصد سول سروس اور مسلح افواج کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی کی فضا میں اضافہ کرنا تھا لیکن اگر مطمحِ نظر صرف یہی تھا تو سول ملازمین کے لیے بھی برابری کی بنیاد پر مسلح افواج میں اسی طرح کا کوٹا مقرر ہونا چاہیے تھا۔ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے اس اقدام کا مقصد اعلیٰ سول سروس میں ایک بڑے گروپ کی تشکیل تھا جس پر مسلح افواج ضرورت کے وقت بھروسہ کر سکیں اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ لامحالہ باقی سول ملازمین کے مقابلے میں فوج کے سابق افسران اپنے پرانے ادارے کی طرف زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھیں گے۔
چونکہ مسلح افواج کا ادارہ نہ پسماندہ ہے اور نہ ہی اس کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لیے تکنیکی طور پر اعلیٰ سول ملازمتوں میں یہ کسی قسم کی ترجیحی سلوک کا حقدار نہیں۔ اس کے علاوہ کسی مہذب جمہوری ملک میں اس طرح کے کوٹے کی نظیر نہیں ملتی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس آمرانہ دور کی روایت کو ختم کیا جائے۔
اس سلسلے میں درج ذیل حقائق کو مدنظر رکھنا کار آمد ثابت ہو گا:
1. یہ کوٹا پاکستان کے باقی شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ اس کوٹے کی وجہ سے ہر سال 100 سے 130 اعلیٰ سول ملازمتوں میں سے تقریباً 13 سے 17 کے درمیان ملازمتیں حاضر سروس مسلح افواج کے افسران کو دے دی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر سال 13 سے 17 پاکستانی شہری مقابلے کے طویل اور مشکل امتحانوں میں کامیاب ہو جانے اور میرٹ میں آ جانے کے باوجود اس کوٹے کی وجہ سے اعلیٰ وفاقی ملازمتیں حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ جن افراد کو یہ نوکریاں ملتی ہیں وہ پہلے سے ہی بر سر روزگار ہوتے ہیں۔
2. مسلح افواج کے افسران کی بنیادی تعلیم بی اے کے برابر ہوتی ہے اور اس تعلیمی عمل میں ان کا زیادہ وقت مسلح تربیت حاصل کرنے میں صرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم پر پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ اور ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ انہیں ایک انتہائی آسان امتحان کے بعد ڈگری دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر مضبوط دانش ورانہ بنیاد جڑ نہیں پکڑ پاتی اور انہیں ان کی تربیت کے برعکس غیرضروری طور پر کام کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں جو شہری سی ایس ایس کے امتحان میں حصہ لیتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں عموما ان کی تعلیم ماسٹرز یا اس سے زیادہ ہوتی ہے اور انہوں نے کئی ماہ، یا بعض اوقات سالہاسال کی سخت تیاری کے بعد یہ مشکل مرحلہ طے کیا ہوتا ہے۔ اس طرح کوٹے کی وجہ سے اہم وفاقی اداروں میں مقابلتاً کم تعلیم یافتہ افسران داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو بصورت دیگر میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ مناسب تعلیم کی کمی وفاقی اداروں کے کام پر بھی منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ ان افسران کی فوجی تربیت کم عمری میں شروع ہوتی ہے اس لیے ان کی سوچ ایک خاص عسکری انداز میں ڈھل جاتی ہے اور یہ انداز سول معاملات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں جدت سے کام لینے سے قاصر ہوتا ہے۔
3. مسلح افواج کے افسران پر اکیڈمی میں حربی تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ بنیادی تربیت مکمل کرنے کے بعد بھی انہیں کیپٹن کے عہدے پر پہنچنے کے لیے مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس پر خطیر قومی وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا ادارہ ہے جو اپنے افسران پر اس قدر کثیر وسائل خرچ کر رہا ہو اور انہیں اس مہنگی تربیت کے بعد آسانی سے اپنے ادارے سے جانے کی اجازت دے دے؟ اس طرح کا قومی وسائل کا مخصوص مقاصد کے لیے سرکاری طورپر ضیاع شاید ہی کہیں نظر آئے گا۔
گو یہ اس مضمون کا مطمح نظر نہیں ہے لیکن اس طرح کے قومی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اگر پاکستانی ڈاکٹر اورانجینیئر بیرون ملک کام کرنے کا ارادہ کریں تو ان کی تعلیم و تربیت پر حکومت کا جتنا خرچ ہوتا ہے انہیں سرکاری خزانے میں جمع کرانا پڑتا ہے۔ اس طرح جو فوجی افسران فوج چھوڑ کر سول ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان سے بھی ان کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کی گئی رقم وصول کرنی چاہیے۔
لیکن اگر کسی طرح یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ان کی سول سروس میں شمولیت ضروری ہے تو انہیں بھی دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح مقابلے کے امتحان میں بیٹھ کر اپنی ذہانت اور قابلیت ثابت کرنی چاہیے۔
4. یہ بھی ایک ذہنی اختراع ہے کہ فوجی افسران کے سول ملازمتوں میں آنے سے سول اور فوجی اداروں میں تعاون بڑھے گا۔ تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلح افواج کے اس کوٹا سسٹم کی وجہ سے فوجی اور سول ملازمین میں اختلافات اور پیشہ وارانہ عداوت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ عموما دیکھا گیا ہے کہ سابق فوجی افسران ایک گروپ کی شکل میں کام کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ معاملات میں پیٹی بند بھائیوں کو دوسرے سول ملازمین پر بلاضرورت ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ تقریباً 40 سال کی اس پالیسی سے اب ان افسران کا ایک بہت بڑا گروپ بن گیا ہے وہ آسانی سے ایک دوسرے کی مدد اور طرفداری کرتے ہوئے دوسرے سول ملازمین کے لیے کبھی کبھی پیشہ وارانہ نقصان کا باعث بنتے ہیں اور شاید یہی رویہ سول افسران کا ہوتا ہے۔ اس پیشہ ورانہ عداوت کی ایک بہت بڑی وجہ ان فوجی افسران کی سول سروس کی میرٹ لسٹ پر فوقیت بھی ہوتی ہے۔
مقابلے کے امتحان میں شامل ہوئے بغیر یہ فوجی افسران اپنے گروپ میں شامل سب سول افسران سے سینیئر قرار دیے جاتے ہیں اور اس وجہ سے ترقی میں بھی فوقیت حاصل کرتے ہیں جو یقیناً سوزش دل کا باعث بنتی ہے اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
البتہ اب صورت حال قدرے مختلف ہے۔ اگرچہ فوج سے آنے والے افسران کو شروع میں متعلقہ محکمے کے افسران کی فہرست کے اوپر رکھا جاتا ہے لیکن اب حتمی سنیارٹی سول سروسز اکیڈمی، پیشہ ورانہ اکیڈمی اور ان کے بعد وفاقی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے بعد بنتی ہے تو بیشتر فوجی افسران اپنی کارکردگی کی بنیاد پر فائنل میرٹ لسٹ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ پھر بھی سروس کے شروع میں انہیں فہرست سے اوپر رکھا جانا سراسر ناانصافی ہے۔
5. طے شدہ کوٹے کی خلاف ورزی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ شاید ماضی کے فوجی حکمرانوں کی زبردستی رہی ہے۔ اس وقت یہ کوٹا دس فیصد کی بجائے 14 اور 17 فیصد کے درمیان گھوم رہا ہے۔ مثال کے طور پر وزارتِ خارجہ میں آج کل یہ کوٹا تقریبا 17 فیصد ہے جو کہ مقرر کردہ کوٹے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
6. یہ تاثر بھی بےبنیاد ہے کہ بہترین فوجی افسران کو سول سروس میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ عام فہم بات ہے کہ کوئی بھی اچھا ادارہ اپنے قابل اور بہترین افسروں کو جانے نہیں دیتا۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلیٰ فوجی افسران کے قریبی فوجی افسروں کو انعام کے طور پر سول سروس میں بھیج دیا جاتا ہے جس میں ذہانت یا قابلیت کا کوئی خاص عمل دخل ہونا ضروری نہیں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس تمام عمل کا مقصد کچھ اور ہے اور سول سروس میں فوجی افسران کی شمولیت کا سلسلہ مسلح افواج میں قائم ایک وسیع سرپرستانہ نظام کا حصہ ہے۔ اعلیٰ عہدوں کی تقسیم اس کوٹے کے علاوہ بھی جاری ہے جن میں واپڈا، پی آئی اے، سول ایویشن اتھارٹی، سی پیک اتھارٹی، اینٹی نارکوٹکس فورس، ایئرپورٹ سکیورٹی فورس، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، وزیراعظم ہاؤسنگ اتھارٹی، ایرا اتھارٹی، نیپ، سپارکو جیسے اداروں میں بڑے عہدوں پر تعیناتی شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حقوق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس غیرمنصفانہ اور غیرآئینی سلسلے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
آخر میں راقم یہ واضح کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ یہ مضمون ہرگز بغض یا پیشہ وارانہ رقابت کی وجہ سے نہیں لکھا گیا بلکہ اس کا مقصد عسکری سربراہوں کو یہ باور کرانا ہے کہ اس ناقص پالیسی کی وجہ سے مسلح افواج غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں الجھ کر غیرضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنتی ہیں اور وطن کے دفاع کے لیے قربانیاں پس پشت چلی جاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment