Thursday, October 17, 2019

اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے 27 سالہ بلاگر گئے کہاں؟


سلیمان فاروق کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرتے تھے اور شاید ان کی کوئی بات ’کسی کو پسند نہ آئی ہو‘، جبکہ ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ان میں شدت پسندی 
کے رحجانات تھے۔
راولپنڈی کے بحریہ ٹاون سے 4 اکتوبر کو لاپتہ ہونے والے نوجوان بلاگر سلیمان فاروق کو غائب ہوئے تقریباً دو ہفتے ہو چلے ہیں اور اب تک ان کے خاندان اور پولیس کو ان کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔ 
سی سی ٹی وی سے حاصل کی گئی فوٹج کے مطابق 4 اکتوبر کی شام ساڑھے پانچ بجے سلیمان فاروق بحریہ ٹاون فیز تھری میں ایک گھر سے ٹیوشن پڑھا کر نکلے تو ایک سفید کلٹس نے ان کی گاڑی کا پیچھا کرنا شروع ہو کر دیا۔
شاہدین کے مطابق سفید کلٹس کے ساتھ ایک اور ویگن نما گاڑی بھی تھی جس میں اسلحہ سے لیس جوان موجود تھے۔ انہوں نے سلیمان کی گاڑی کو روکا اور زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ ان کی گاڑی بعد میں ہائی وے پارک سے ملی۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ معاملہ کیا ہے تاہم سلیمان کے اہل خانہ کو شک ہے کہ سلیمان کو سوشل میڈیا پر حکومتی اداروں پر تنقید کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کی  بہن خالدہ نے بتایا کہ 6 اکتوبر کو 27 سالہ سلیمان کی منگنی تھی اور سب اس کی تیاریوں میں مصروف تھے، مگر اس رسم سے دو دن پہلے ہی ان کا اس طرح اچانک لاپتہ ہو جانا خاندان کے لیے بہت اذیت ناک ہے۔
خالدہ کے مطابق وہ پانچ بہن بھائی ہیں اور پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں دو بڑے بھائی امریکہ میں ڈاکٹر ہیں جبکہ وہ خود تعلیم کے شعبےسے منسلک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سلیمان بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں اور انہوں نے الیکٹریکل انجنئیرنگ کر رکھی ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی سے بھی سکالر شپ حاصل کر رکھی ہے۔
خالدہ کے مطابق سلیمان آج کل سی ایس ایس کی تیاری میں مصروف تھے اور اسی سلسلے میں پڑھنے اکیڈمی بھی جاتے تھے جبکہ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔
خالدہ نے کہا کہ انہیں نہیں علم کہ ان کے بھائی نے ایسا کیا جرم کیا کہ ان کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا۔
سلیمان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں خالدہ نے کہا: ’سلیمان بلاگز لکھتا تھا اور حکومتی پالیسیوں کا ناقد تھا، شاید یہ بات کسی کو پسند نہیں آئی۔‘
سلیمان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کوئی اتنی قابل اعتراض ٹویٹس نظر نہیں آئیں جن کی بنیاد پر ان کو کسی تفتیش میں شامل کیا جاتا۔ البتہ ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید سے بھری پوسٹس ضرور نظر آئیں جن میں سے کچھ میں قانون نافذ  کرنے والے اداروں پر بھی تنقید کی گئی تھی۔
آن لائن متنازع مواد پوسٹ کرنے اور تنقید کرنے کے حوالے سے چئیرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ عامر باجوہ قومی اسمبلی کی کمیٹی میں پہلےہی کہہ چکے ہیں کہ ہر بات پر اکاؤنٹ بلاک نہیں کیے جا سکتے یا کارروائی نہیں کی جا سکتی اور نہ آزادی رائے کا حق ختم کیا جا سکتا ہے۔
سلیمان کے گھر والوں نے گمشدگی کی ایف آئی آر تھانہ لوئی بھیر میں درج کروائی ہے۔
اس معاملے پر جب پولیس سے رابطہ کیا گیا تو معاملہ حساس ہونے کے باعث پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ سلیمان کے معاملے پر متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔
 انہوں نےدعویٰ کیا کہ سلیمان میں شدت پسندی کے رحجانات تھے اور  وہی کچھ بلاگز میں بھی لکھتے تھے۔ تاہم پولیس اہلکار نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
 جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا صرف رجحان رکھنا ہی لاپتہ ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ صرف رحجانات نہیں بلکہ کچھ مشتبہ رابطے بھی ملے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سلیمان کی گمشدگی کی تحقیق جاری ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی معاملہ حل ہو جائے گا۔
سلیمان کے لاپتہ ہونے پر سوشل میڈیا پر بھی کچھ پوسٹ موجود ہیں جن میں ان کے دوست یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی گمشدگی کے پیچھے قانون نافذ کرنے والے اداروں ہیں۔


No comments:

Post a Comment