Wednesday, August 28, 2019

پشتو ادب ’ج جہاد‘ اور ب بم‘ سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے



 پشتو زبان کے ادیبوں کا کہنا ہے کہ پچھلے پچاس سالوں سے جنگ زدہ ماحول کا شکار پشتو ادب نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور پشتو ادیب روایات سے ہٹ کر نئے رجحانات اور تخلیقات متعارف کروا رہے ہیں۔
پشتو زبان کے ادیب اور شاعر عصمت اللہ زہیر پشتو ادب کی حالیہ تاریخ کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’پشتون قوم گذشتہ پچاس سالوں سے جس قسم کے حالات کا سامنا کر رہی ہے وہاں پر ادب بھی اس سے مبرا نہیں رہا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ادب میں پہلے دو چیزیں وارد ہوئیں۔ ایک رجعتی دور تھا دوسرا جسے ہم ترقی پسند دور کہتے ہیں۔ 
’رجعتی رجحان یہ رہا کہ ہمارے ادب میں ’ٹ سے ٹوپک‘ یعنی بندوق اور ’ت سے تورا‘ یعنی تلوار، ’ج سے جہاد‘ اور ’ب سے بم‘ جیسے قصے آئے جو دراصل باہر سے درآمد کیے گئے۔ ان کا مقصد پشتونوں کی ذہن سازی کرنا تھا جس نے پشتو ادب کو بھی متاثر کیا۔‘ 
ان کے بقول: ’رجعتی دور کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ لکھاری جنگ سے متاثر ہو کر ملک چھوڑ گئے اور بعض اب بھی یہاں پر ادب کی خدمت کر رہے جنہوں نے اس کی ٹھوس وجوہات بیان کیں کہ ہمارے خطے کے حالات سے ادب کتنا متاثر ہو رہا ہے اور جو کچھ تخلیق ہو رہا ہے اس کی وجوہات اور مقاصد کیا ہیں۔‘
عصمت اللہ زہیر نے کہا: ’یقیناً اگر کسی بھی علاقے یا خطے میں جنگ کے حالات ہوں تو وہاں کا حساس طبقہ ادیب زیادہ متاثر ہوتا ہے، ایسے میں ادیب وہی کچھ وہ لکھے گا جو سامنے ہو گا، اگر کہیں خون بہے اور بم گرے تو وہاں کے ادب میں پھول، رومانس اور دلہن کی بات نہیں بلکہ خونریزی موضوع بحث ہو گا اس لیے اس دور میں ہمیں شاعری افسانے اور ناول انہی حالات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔‘
عصمت اللہ کے بقول: ’گذشتہ چار عشروں سے شاعر پابند نظم لکھتے رہے ہیں اب وہ آزاد نظم بھی لکھتے ہیں۔ مختصر اور نثری نظم بھی سامنے آئے ہیں۔ پشتو افسانہ اب روایتی ڈگر سے باہر نکل کر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی طرف جا رہا ہے۔‘
پشتو ادیب سمجھتے ہیں کہ پاک افغان خطے میں جو کچھ نائن الیون کے بعد ہوا اس نے ادب کو بھی متاثر کیا اور جس میں عالمی قوتوں نے نہ صرف طالبان اور رجعتی فورسز کو نشانہ بنایا بلکہ اس میں ترقی پسند بھی مارے گئے۔
عصمت اللہ کے مطابق سنہ1978کے بعد جب افغان انقلاب آیا اس کے بعد پاکستان کے جنوبی پشتونخوا علاقے میں افغان بچوں کے سکولوں کے لیے جو نصاب لایا گیا اس میں بنیاد پرستی،مذہب پرستی کو دوام دیا گیا۔
پشتون ادبا کے مطابق لکھاریوں نے دوسرے خطوں کی نسبت بلوچستان کے پشتون خطے میں یہاں کے حالات سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا اس کی ایک مثال پروفیسر راز محمد راز ہیں جنہوں نے اپنا موضوع بحث بلوچ قوم کو بنایا اور ایک ناول میں ان کے مرکزی کردار بلوچ لیڈر نواب اکبر خان بگٹی ہیں۔
پشتون ادیبوں کے مطابق 50سال بعد پشتو ادب جدت کی طرف جارہا ہے۔ پشتو ادیب افسانہ نگاری، مختصر نظم اور کہانی لکھنے کے ساتھ دیگر زبانوں کی کتابوں کا پشتو ترجمہ بھی کر رہے ہیں اور اب لوگ دوبارہ ٹالسٹائی، گورگی اور چیخوف کو پڑھ رہے ہیں اور ان کی کتابوں کا ترجمہ پشتو زبان میں ہو رہا ہے۔ 
پھر پشتو ادب میں فلسفہ بھی آیا، جو ہمارے لیے ہمیشہ سے شجر ممنوعہ رہا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو بتایا گیا کہ جو فلسفے کی بات کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں بلکہ کافر ہے اس سوچ کی وجہ سے پشتو ادب میں فلسفہ کا نام ونشان نہیں تھا اب نوجوان نسل جو سامنے آ رہے ہیں وہ ان سب پر کام کر رہے ہیں، نئے تجربے ہو رہے ہیں، نئے افکار سامنے آ رہے ہیں اور آج لوگ جدید ادب کو دوبارہ پڑھ رہے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment