Sunday, May 19, 2019

’ہم آج بھی کسی کے خلاف نے بلکہ پاکستان کے حق میں جمع ہوئے ہیں۔‘ - بلاول بھٹو

پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی افطار دعوت میں شرکت کی جس میں بلاول بھٹو کے بقول ملک کو درپیش مسائل پر بات چیت کی گئی۔
ملاقات کے بعد تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی جس میں بتایا گیا آج کی ملاقات کا مقصد پاکستانی عوام کو درپیش مشکلات پر غور و فکر کرنا تھا۔
زرداری ہاؤس اسلام آباد میں منعقد افطار ڈنر میں مسلم لیگ (ن) کے وفد میں مریم نواز کے ہمراہ پارٹی کے نائب صدر حمزہ شہباز، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور پارٹی رہنما پرویز رشید موجود تھے۔ جبکہ اجلاس میں جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان، زاہد خان، میاں افتخار حسین کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو، بلوچستان نیشنل پارٹی کے جہانزیب جمالدینی نے بھی شرکت کی۔
نیوز کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا ’ملک کے عوام مہنگائی کی سونامی میں ڈوب رہے ہیں۔ اس سے احساس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو غریبوں کا کوئی درد نہیں۔ اگر ہماری معیشت ایسی چلتی رہی تو ملک کو بہت نقصان ہو گا۔ ‘
بلاول کا کہنا تھا ’ہم آج بھی کسی کے خلاف نے بلکہ پاکستان کے حق میں جمع ہوئے ہیں۔‘
افطار ڈنر پر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’آج ہم نے معیشت سے سکیورٹی تک اور فارن پالسیی سے انسانی حقوق تک بہت سے مسائل پر بات چیت کی۔ ان سب مسائل کا حل بھی مل بیٹھ کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ ‘
اس موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ 'تمام جماعتیں پارلیمان کے اندر اور باہر علیحدہ علیحدہ احتجاج کریں گی'۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی سیاسی جماعت تنہا پاکستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتی۔ جہاں تک ہمارے احتجاج کا تعلق ہے ہم عید کے بعد ایک مشترکہ لائحہ عمل دیں گے۔ ‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا ’میں نے انتخابات کے دوران ہی کہا تھا کہ ہمیں میثاق جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ پاکستان کے نوجوان سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتیں کی رائے لینے کی کوشش کریں گے۔ ‘
انھوں نے زور دیا کہ ’جمہوریت ہی پاکستان کے سارے مسائل کا حل ہے۔ ‘

میثاق جمہوریت کا فائدہ

صحافیوں کی جانب سے میثاق جمہوریت پر رائے طلب کرنے پر پہلے تو مریم نواز نے بلاول کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے افطار کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بلاول سے ان کی پہلی ملاقات نہیں ہے ’بلاول میری والدہ کی وفات پر تعزیت کی تو اسی لیے میں نے یہ دعوت قبول کی۔ بلاول نے میاں صاحب کی طبیعت بھی پوچھی۔ مجھے اچھا لگا۔‘
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’چارٹر آف ڈیموکریسی ( میثاق جمہوریت) کا پاکستان کو یہ فائدہ ہے کہ ملکی تاریخ میں دو جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔ ‘
ان کا کہنا تھا اس میثاق جمہوریت کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ’ہم آنے والے وقت میں اس میں مزید چیزیں شامل کریں گے اور آگے لے کر چلیں گے۔ ہماری پارٹیاں پیپلز پارٹی اور ن لیگ روایتی حریف رہی ہیں لیکن ہمارے پارٹی اقدار اور تربیت ایسی ہے کہ بات کرتے ہیں اور معاملات کو ناقابلِ واپسی حد تک نہیں لے کر جاتے۔‘
اس موقع پر مسلم لیگ نواز کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا ’آج کی ماقات کا ہدف مہنگائی کو خِتم کرنا، معیشت کو سہارا دینا تھا، پاکستان کے عوام کے مسائل کو ختم کیا جائے جس میں موجودہ حکومت ناکام ہوئی ہے۔‘
حزب اختلاف کی جماعتوں کے یوں مل بیٹھنے کو حکومت کو گرانے کی کوشش قرار دیے جانے کے خدشے کے جواب میں کہا انھوں نے استہزایہ انداز میں کہا کہ ’اس حکومت کو گرانے کی ضرورت نہیں یہ پہلے ہی ہر طریقے سے گری ہوئی ہے۔‘
عید کے بعد مولانا فضل الرحمن ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
فردوس عاشق اعوان کا ایک نجی ٹیلی وژن سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’تحریک چلانے کے لیے بیانیہ چاہیے ہوتا ہے ن لیگ کا جو بیانیہ ہے اس کی حقیقت سے عوام آگاہ ہیں کہ معیشت کی تباہ حالی اور مہنگائی کا کون ذمہ دار ہے۔ ‘


حزب اختلاف۔‘

دیگر رہنماوں کا موقف

اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اظہار خیال کیا۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’نااہل لوگوں کو اقتدار سونپنے کی وجہ سے ملک متعدد مسائل سے دوچار ہے۔‘
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اے پی سی سے ملک میں تاریخی طور پر ایک نئے اپوزیشن اتحاد سامنے آئے گا۔
قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیر پاؤ نے کہا کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ایسی صورتحال میں اپوزیشن جماعتیں بیٹھی نہیں رہ سکتیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کہ رہنما محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’ملک میں ہر ادارہ یرغمال ہے یرغمال شدہ نظام کو واپس عوام کے ہاتھوں میں لانے کے لیے شاید مشکلات کا سامنا ہو لیکن شاید ہم ریاست کو بچا سکیں۔ ‘

No comments:

Post a Comment