Thursday, April 4, 2019

عوام کے مقبول رہنما ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘

فاروق اقدس



بھٹو صاحب کو یقین تھا اور اعتماد بھی کہ اُن جیسے بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت کے حامل لیڈر کو کوئی فوجی آمر پھانسی لگانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ جبکہ جنرل ضیاء الحق کو یقین تھا کہ اُن کی بقاء بھٹو کی فنا میں ہے ۔ یہیں سے ’’قبر ایک اور بندے دو‘‘کی بات سامنے آئی تھی اور پھر حالات نے جنرل ضیاء الحق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
جیل کی کوٹھڑی میں جب ایک افسر نے بھٹو صاحب کو معافی نامہ کی دستاویزات پر دستخط کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تو بھٹو صاحب نے اُس سے پوچھا تم جانتے ہو میں کس باپ کا بیٹا ہوں تو اُس نے سرہلا کر جواب دیا۔ جی سر! آپ سرشاہ نواز کے بیٹے ہیں۔ پھر بھٹو صاحب نے کہا کہ کیا تمہیں ضیاء الحق کے باپ کا نام معلوم ہے جس پر اُس افسر نے نفی کے انداز میں سرہلا کر سرجھکا دیا۔
تین اپریل شب کی راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں ہر طرف ہو کا عالم تھا، اتناسکوت کہ چھوٹی سے آہٹ پر بھی کسی بڑے سانحے کا امکاں دستک دیتا محسوس ہورہا تھا۔ تاریکی اور خاموشی کے اس عالم میں جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور کسی نے آواز دی۔ تارا مسیح اُٹھو۔۔۔ تیاری پکڑو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے۔
چار اپریل کا سورج نکلا تو اسلامی دنیا کی ایک عظیم شخصیت اور پاکستانی سیاست کا چمکتا ہوا چاند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی کے منظر سے اوجھل ہوچکا تھا۔
پیپلزپارٹی کے لاکھوں کارکنوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہ زعم تھا کہ آخری وقت میں کسی اسلامی ملک کا طیارہ آئے گا اور اُنہیں جیل سے نکال کر پرواز کرجائے گا۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ 
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین کی افسردہ یادوں کے حوالے سے آج پھر چار اپریل کا یادگار دن ہے۔ آج 40سال بعد پھر پاکستان بھر میں اور بیرون ممالک اس دن کو بھٹو صاحب کی یادوں سے منایا جائے گا تاہم 40 سال بعد اب پیپلزپارٹی کے سیاسی جیالوں سے زیادہ پارٹی کے وہ نظریاتی کارکن جو بھٹو صاحب کے بعد اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے یا پھر وہ جیالے جو بلاول بھٹو میں اپنے قائد کی شہبیہ دیکھتے ہیں وہ اس دن کو سیاسی عقیدت کے طور پر منائیں گے۔ لیکن حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جس طرح پارٹی کے بانی چیئرمین بھٹو صاحب کا نظریہ ، فلسفہ، سوچ اور ارادے ان کے ساتھ میں بتدریج پس منظر میں چلے گئے تھے اُسی طرح پارٹی کے سنجیدہ ، وفادار اور بھٹو صاحب کی سوچ اور اُن کے افکار کی ترویج کرنے والے بھی یا توزندگی کے منظر سے چلے گئے ہیں یا پھر حالات کے پیش نظر پس منظر میں جاچکے ہیں۔ تاہم آج بھی ملک بھر میں برسی کی تقریبات ہوں گی جس طرح پانچ جنوری کو اُن کی سالگرہ منائے جانے پر کیکٹ کاٹے جاتے ہیں اور چھینا چھپٹی ہوتی ہے اُسی طرح آج اُن کے سوگ میں قرآن خوانی کی محافل ہوں گی ، پلاؤ کی دیگیں پکیں گی اور چہلم پر بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئیں گے۔ پاکستان کے ایک قدآور اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے اہم لیڈروں کی صف میں شمار ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی یاد یں اب سال میں صرف دو مرتبہ منائی جاتی ہیں اُن کی سالگرہ پر یا پھر برسی پر۔ ہر سال چار اپریل کو بھٹو صاحب کی یاد یں جب تازہ ہوتی ہیں تو یہ سوال بھی ذہین میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھٹو صاحب کے گلے میں پھندا ڈال کر اُنہیں تختہ دار چڑھا کر اُن کاا عدالتی قتل نہ کیا جاتا تو آج کا پاکستان کیسا ہوگا۔ آج اُن کی جماعت کیسی ہوتی۔ بھٹو کا قتل کیوں کیا گیا، ایک خوفزدہ جرنیل نے اپنے انجام کے پیش نظر یا بین الاقوامی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے۔ بھٹو صاحب کا حد درجہ اعتماد کہ اُنہیں پھانسی نہیں دی جائیگی یا پھر مقدمے کے دوران جارحانہ گفتگو اور اپنے غیر سیاسی مخالفین کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کی دھمکیاں اور عزائم، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات اور عوامل بھی ہوسکتے ہیں ۔ اپنوں کی سازشیں اور اغیار کی گھاتیں، بھٹو صاحب نے اپنی زندگی کے آخری شب وروز راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں جہاں اب ایک وسیع و عریض پارک، سینما ہاؤس اور فاسٹ فوڈ کے ریستوران بن چکے ہیں گزارے ۔اور اس پارک کے عین عقب میں چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس ہے۔ اس پارک میں آنے والے بچوں اور بڑوں کو شاید ہی اس بات کا علم ہوکہ محض چند منٹ کی مسافت پر پاکستان کی تاریخ کا کیا سانحہ بپا ہوا تھا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو جہاں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش پانچ جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں ہی ہوئی جو سرشاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ۔ جنہیں حکومت برطانیہ نے سرکا خطاب دیاتھا۔ کیونکہ سیاست ہند میں اُنہیں ایک اہم حیثیت اور بڑا مقام حاصل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خاندانی پس منظر ، حسب نسب اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور پھر بعد میں عوام کی پسندیدگی ، مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر بھی بڑا زغم تھا جو ایک فطری سے بات تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے ناقدین اُنہیں قدرے خود سر، انا پرست اور فیصلوں میں عدم مشاورت کرنے والی شخصیت بھی قرار دیتے تھے ۔ اور اُن کی غیر فطری موت کو انہی عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ واقعہ بھی بر محل ہوگا کہ جو ریکارڈ پر ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا اُنہیں یہ مشورے دے رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اُن سے رحم کی اپیل کراکے اُن سے ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک جانے پر آمادہ کرلیا جائے تو یہ زیادہ مناسب فیصلہ ہوگا لیکن جواب میں جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اس گفتگو کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی نجی محفلوں میں جرنیلوں کو الٹالٹکانے والی باتیں کیا کرتے تھے ۔ بہر حال ایک آخری کوشش کے طور پر ایک اعلیٰ افسر کو جیل میں بھٹو صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ اُس وقت بھٹو صاحب کی کیفیات خاصی خراب تھیں ، مذکورہ افسر نے بھٹو صاحب کے سامنے رحم کی اپیل کی دستاویزات رکھیں اور اُنہیں فوجی حکومت کی پیشکش کو ’’اشارتاً‘‘ بیان کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے قائل کیا۔ مذکورہ افسر کے مطابق بھٹو صاحب نے دستاویزات پر نگاہ ڈالے بغیر مجھ سے پوچھا ۔ تم جانتے ہو میں کس باپ کا بیٹا ہوں ۔ تو میں نے فوراً کہا جی سر ۔ آپ سر شاہنوازکے بیٹے ہیں ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ۔ کیا تمہیں ضیاء الحق کے باپ کا نام معلوم ہے ؟ میری خاموشی پر انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق اور مجھ میں بہت فرق ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا ایک فوجی جنرل سے رحم کی اپیل کرے گا۔ ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں۔۔۔ اور بات ختم ہوگئی۔ تاہم اُس وقت کی تمام صورتحال سے آگہی رکھنے اور معاملات سے متعلق شخصیات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کے لئے معافی مانگ لیتے اپیل کر دیتے تو پھر بھی جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھی انہیں معاف نہیں کرتے اور معافی مانگ کر بھٹو صاحب کو تاریخ اور ان کے مخالفین ایک بزدل سیاستدان قرار دیتے۔ در حقیقت جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک خوف کے عالم میں کیا۔ یہ خوف کیا تھا اس کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو معزولی کے بعد پہلی مرتبہ مری سے راولپنڈی لایا گیا اور پھر وہ لاہور گئے تو ان کے شاندار استقبال کے لئے وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کئی زیادہ تھی جو انتہائی پر جوش تھے اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا جو واقعی جیالے تھے اگر بھٹو صاحب حکم کرتے کہ’’ مجھے ایک آمر سے پناہ دو تو یہ کارکن انہیں حصار میں لے لیتے اور منظر بھی بدل جاتا اور تاریخ بھی‘‘۔ ضیاء الحق نے صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر میں نے بھٹو کو زندگی بخش دی تو میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی اسی خوف کے عالم میں جنرل ضیاء الحق نے ہر صورت میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات بھی ریکارڈ سے ثابت ہوچکی ہے کہ بھٹو صاحب کو تین اور چار اپریل کی درمیانی شب لگ بھگ دو بجے پھانسی دی گئی یہ ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ پھانسی علی الصبح دی جاتی ہے اور یہ عمل انتہائی خاموشی اور رازداری کے انداز میں انجام دیا گیا۔اتنی رازداری سے بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کا علم محض چند لوگوں کو ہی تھا اور ان کے بیرونی رابطے منقطع کر کے باہر جانے کے تمام راستوں پر بھی سخت پہرا تھا احکامات تھے کہ جب تک اجازت نہ دی جائے جیل میں کسی قسم کی بھی نقل و حرکت نہیں ہوگی۔ رات دو بجے پھانسی دینے کا مقصد یہ تھا کہ صبح ہونے سے پہلے یہ عمل مکمل ہوجائے اور ڈیڈ باڈی وہاں سے روانہ کر دی جائے۔ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام اور جیل کے اعلیٰ افسران کو ایک دو کو چھوڑ کر جنکی اس عمل میں موجودگی لازمی تھی بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کے بارے میں بھی اس علم ہوا جب صبح سات بجے ان کا ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ جاری ہوا۔ انتظامیہ اور جیل حکام اس کے باوجود اس خبر پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ان کا خیال تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جو بھٹو صاحب کو خوفزدہ کرنے کے لئے رچایا جارہا ہے۔ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا خیال تھا کہ شاید بھٹو صاحب کو میانوالی جیل منتقل کیا جارہا ہے اور انہیں وہاں پھانسی دی جائے گی کیونکہ راولپنڈی میں یہ خبر پھیلنے سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ فوری طور پر پہنچ جائے گا اور پھر کارکنوں کی طرف سے فوری اور کسی جذباتی رد عمل کا بھی خطرہ تھا۔ پھر اس وقت صرف پاکستان پیپلزپارٹی میں ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں میں بھی ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ یاسر عرفات اور قذافی سمیت اسلامی دنیا کے اہم لیڈر جو بھٹو صاحب سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے وہ عین موقع پر ان کی رہائی کے لئے کوئی بڑا اقدام کر سکتے ہیں افواہیں گرم تھیں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں جن میں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ رات کی تاریکی میں کسی اسلامی ملک کا طیارہ جیل سے بھٹو صاحب کو لیکر پرواز کر جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور بھٹو صاحب کو طے شدہ منصوبے کے تحت تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
یہ سوال بار بار ہوتا تھا کہ مختلف مسلم ممالک کے سربراہوں نے جنرل ضیاء الحق سے بار بار بھٹو صاحب کی جاں بخشی کے لئے اپیلیں کیں۔ جنرل ضیاء الحق پر اپنا ذاتی اثرو رسوخ بھی استعمال کیا۔ یہ یقین دھانی بھی کرائی کہ ہم بھٹو کو اپنے پاس پناہ دیتے ہیں وہ آپ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن جنرل ضیاء کی طرف سے انکار ناقابل فہم تھا۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو عینی شاہد کی تحریریں اور ان کی غیر رسمی گفتگو سے معلوم ہوتاہے کہ جنرل ضیاالحق نے ڈویژن کمانڈر کی حیثیت میں ہی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکاخان کی جگہ حاصل کرنے کی خواہش کوعملی شکل دینے کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ وہ ڈویژن کمانڈر کی حیثیت سے بھٹوصاحب کاقرب حاصل کرنے کے لیے خصوصی طور پر ایسی تقریبات کاانعقاد کرتے اورنہ صرف بار بار اپناتعارف کراتے اور ان کے حکومتی اقدامات، ذہانت اور ایک بین الاقوامی شخصیت قراردیکر انہیں خراج تحسین بھی پیش کرتے۔ عینی شاہدین کایہ بھی کہناہے کہ وہ محدود افراد کی بعض محفلوں میں بھٹو صاحب کو سلیوٹ کرنے کے بعد نہ صرف سرخم کرکے بلکہ خمیدہ کمرکے ساتھ ان سے ہاتھ ملاتے۔ درحقیقت یہ پیغام تھا کہ ۔’’سربحیثیت فوجی کمانڈرکے تومیں آپ کے ماتحت ہوں ہی۔ لیکن ذاتی حیثیت میں بھی آپ کا تابعدار اوروفادار بھی ‘‘ اہم عسکری منصب پرمتعین ایک ریٹائرڈ شخصیت کے مطابق۔ ایک تقریب میں جنرل ضیاالحق نے بھٹوصاحب کی ملک و قوم کے لیے اعلیٰ خدمات اور مسلح افواج کی اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں بھٹو صاحب کو ایک تلوار پیش کی اورانہی کے اصرار پر ذوالفقار علی بھٹو آرمرڈکورکے کرنل انچیف بننے پر رضامند ہوئے تھے حالانکہ یہ اعزاز جرنیل کے عہدے کے آرمی آفیسرکودیاجاتاہے۔ صرف یہی نہیں جنرل ضیاالحق نے انہیںیہ ترغیب بھی دی کہ وہ آرمرڈ کور کرنل انچیف کی وردی پہن کرایک ملٹری پریڈ کامعائنہ کریں اور سلامی لیں۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات تھے جس باعث یکم مارچ 1976کوتوجنرل ٹکاخان کی ملازمت کادورانیہ مکمل ہواتوان کی جگہ بھٹوصاحب کی نظرضیا الحق سے بڑھ کر اس منصب کاکوئی اہل اور قابل اعتماد شخص نہیں تھاحالانکہ سنیارٹی کے اعتبار سے اس منصب کے لیے دوسری عسکری شخصیات بھی موجود تھیں جو میرٹ کی بنیاد پر جنرل ٹکاخان کی جگہ چیف آف آرمی سٹاف بننے کے مطلوبہ عسکری تقاضوں پرپورااترتی تھیں لیکن ہرحکمران کی طرح بھٹوصاحب ضیاالحق کی عاجزی، انکساری اور ستائش جملے کے سحرمیں گرفتار ہوچکے تھے اور ضیاالحق ہی اپنی حکمت عملی کے تحت خود کو بھٹو صاحب کاوفادار اور قابل اعتماد ساتھی باورکرانے میں کامیاب ہوچکے تھے اس لیے انہوں نے کئی سینئرز افسروں کو نظر انداز کرکے ضیاالحق کوان پر فوقیت دی اور اس طرح یکم مارچ 1976 کوانہیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیاگیا۔پاکستان قومی اتحاد کے نام سے1977میں بھٹو صاحب کے خلاف ایک زبردست تحریک چلی جس کے آغازمیں جنرل ضیاالحق نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے فوجی یونٹوں کے معائنے کے دوران افسروں اور جوانوں کو تلقین کی کہ ان کاکام بغیرسوچے سمجھے احکامات کی اندھی تقلید کرنا ہے اور یہ کہ کسی حکم کے قانونی یااخلاقی حتیٰ کہ انسانی بنیادوں پر عملدر آمد پرکوئی سوال کرناڈسپلن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے محض چند ہفتے قبل انہوں نے فضائیہ اوربحریہ کے سربراہان کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب سے وفاداری کواپنی منصبی ذمہ داری قراردیتے ہوئے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کرایا جس کاخوب چرچاہواتھاتاریخ یہ بتاتی ہے کہ ترقی پذیرملکوں جہاں جمہوریت ہمیشہ آمریت کے رحم و کرم پرہوجب فوج کی جانب سے جمہوری حکومت کے حق میں ایسے بیانات جاری کیے جاتے ہیں تو درحقیقت اس وقت فوج ہرفیصلہ کر چکی ہوتی ہے کہ اب کیاکرناہے جس کے لیے فوری طور پر تمام تیاریوں کوآخری شکل دینے کاعمل شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن اس بیان تک بھٹوصاحب کواس بات کایقین تھا کہ انہوں نے جنرل ضیاالحق کو دوسرے جرنیلوں پرفوقیت دیکر فوج کا سپہ سالار بنانے کا فیصلہ بالکل درست کیاتھا اور وہ ان کے اعتماد اور بھروسے پر پورے اتررہے تھے ہرچند کہ ان کے بعض رفقا اس ضمن میں مسلسل انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کررہے تھے جنکا تفصیلی ذکر مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب’’اورلائن کٹ گئی‘‘ میں بھی کیاہے۔
یہ 3 اپریل کی شب تھی جب راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں ہر طرف موت کا ایک سکوت طاری تھا ۔ ایک پراسرار سی خاموشی جس میں ایک نئی تاریخ لکھی جانے کی تیاری ہورہی تھی ، ایک عہد جو ایک کربناک ماضی بننے والا تھا ۔ سوائے چند لوگوں کے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ جب 4 اپریل کی صبح کا سورج نکلے گا تو کتنا بڑا چاند ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوچکا ہوگا۔اس موقع پر موجود عینی شاہد بہت کچھ دیکھنے والے اور پھر اُسے تحریر کرنے والے لکھتے ہیں ۔ بتاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ رات کی تاریکی کائنات کی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو جیل حکام دوبارہ مسٹر بھٹو کے پاس پہنچے ۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان سے کہا "آج رات آپ کو پھانسی دے دی جائے گی۔"مسٹر بھٹو منہ سے کچھ نہ بولے ٗ خاموشی سے ٹکٹکی باندھے سپرنٹنڈنٹ جیل کو گھورتے رہے ۔ ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھمبیر سنجیدگی دیکھی تو انہیں پہلی بار لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ یہ خبر درست بھی ہوسکتی ہے تاہم اب بھی ان کا ردعمل یہی تھا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے قاعدہ کے مطابق ان کاطبی معائنہ کیا اور حکام کو بتایا کہ مجرم کی صحت بالکل ٹھیک ہے ٗ اسے پھانسی دی جاسکتی ہے ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے ۔ انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی ۔ مسٹربھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا کہ’’ میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا‘‘۔ انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔ شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ مسٹربھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔ رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔ جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔ مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی، آنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔
رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ، تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ، اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔ پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے، معاملہ واقعی ’’سیریس‘‘ ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔ دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے ’’مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے‘‘ انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔ پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے ۔
مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔ گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر

No comments:

Post a Comment