Sunday, January 20, 2019

' الیکشن لڑنے والے سکھ رہنما پشاور چھوڑنے پر مجبور

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پشاور سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے سکھ امیدوار دھمکیوں اور قاتلانہ حملوں کے بعد پشاور سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران پشاور سے دوسرے علاقوں اور شہروں میں منتقل ہونے والے رادیش سنگھ کا واحد خاندان نہیں بلکہ ان کے علاوہ کئی خاندان اپنی جان و مال بچانے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا بھی منتقل ہو چکے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ہمراہ میان افتخار کو دی جانے والی دھمکیوں کے خلاف احتجاج کے موقع پر بشری گوہر اور جمیلہ بی بی کے ساتھ


سکھوں کی پشاور سے منتقلی کی وجہ ٹارکٹ کلنگ اور دھمکیوں کا نشانہ بننا ہے۔ سکھ فیڈریش آف پاکستان کے مطابق سنہ 2014 سے لے کر 2018 تک دس سکھ ٹارکٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور کئی کو دھمکیاں ملی ہیں جبکہ کئی ایک کو اغوا کیا گیا اور بعد میں بھاری تاوان کے عوض چھڑایا گیا
رادیش سنگھ مشہور سیاسی و سماجی رہنما ہیں جو پورے ملک کی سکھ برادری کے علاوہ پشاور بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انھیں اکتوبر سنہ 2005 میں خیبر پختوںخوا میں آنے والے سیلاب کے دوران سماجی خدمات انجام دینے پر کئی ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ رادیش سنگھ کئی سالوں سے پشاور کے کئی مقامات پر مسلمانوں کے لیے رمضان کے موقعے پر افطار کیمپ بھی قائم کرتے ہیں۔ پشاور کے سکھ، دیگر اقلیتیں اور مسلم سب انھیں ٹونی بھائی کے نام سے جانتے ہیں۔
رادیش سنگھ عرف ٹونی بھائی نے بی بی سی کو بتایا: 'لگتا ہے کہ کچھ حلقوں کو میرا عام انتخابات میں حصہ لینا پسند نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے دوران مجھے دھمکی آمیز کال موصول ہوئیں اور یہ ایسی کال تھی جو موبائل نمبر پر نہیں آ رہی تھی جن کی باقاعدہ پشاور کے مقامی تھانہ میں شکایت درج کروائی گئی تھی۔
’انہی انتخابات کے دوران تین مرتبہ مجھ پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک حملہ انتخابات سے دو روز پہلے ہوا تھا۔ قاتلانہ حملوں کی پولیس کو اطلاع اس لیے نہیں دی تھی کہ دھمکیوں کی اطلاعات پر بھی پولیس نے خود حفاظتی اقدامات کرنے کی جگہ مجھ پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی تھیں۔
انھوں نے مزید کہا: 'پولیس دھمکیوں کی شکایات پر مجھے ہدایات دے رہی تھی کہ میں گھر پر سکیورٹی گارڈ رکھوں اور کیمرے لگاؤں۔ میں نے روزانہ گھر پر آنا جانا شروع کر دیا تھا جبکہ میری والدہ کینسر کی مریضہ ہیں اور وہ اس صورتحال سے مزید پریشان ہوتی تھیں جس پر دوستوں کے مشورے کے بعد یہ ہی مناسب سمجھا کہ پولیس کو قاتلانہ حملوں کی اطلاع نہ دی جائے۔'
رادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد انتخابات کے ان نظام پر احتجاج کرنا تھا جس میں پاکستان میں موجود اقلیتیں اب اپنے نمائندوں کا خود انتخاب نہیں کر سکتیں بلکہ وہ اب سیاسی پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہیں جو ایسے اقلیتی نمائندے نامزد کرتے ہیں جو اقلتیوں کے بہرحال نمائندہ نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا: 'میں عام بلدیاتی انتخابات کے موقعے پر براہ راست کونسلر منتخب ہوا تھا جس میں مجھے اکثریتی مسلم ووٹ ملے تھے۔ اس دوران میں نے عوام کی بھرپور خدمت کی تھی جس بنا پر میں پرجوش تھا کہ لوگ مجھے خدمت کی بنیاد پر ووٹ دیں گے مگر ایسا تو نہ ہو سکا مگر مجھے اپنا گھر بار چھوڑ کر لاہور میں پناہ حاصل کرنا پڑی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد انھیں اطلاعات ملنا شروع ہو چکی تھیں اور دوستوں نے بھی خبردار کیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو سکتا ہے جس بنا پر انھوں نے انتہائی دکھی دل اور کمسپرسی کے عالم میں گذشتہ سال اکتوبر میں پشاور کو خیرباد کہا۔
ہماری صورتحال یہ تھی کہ ہمیں اتنی جلدی منتقل ہونا پڑا تھا کہ میرے پاس میرا واحد اثاثہ ایک مٹسوبشی کار ماڈل 1987 تھی جس کو میں نے کچھ عرصہ قبل ڈھائی لاکھ میں خریدا تھا جبکہ اس کو 55 ہزار میں فروخت کرنا پڑا۔ میرا الیکٹرانکس کی سپلائی کا چھوٹا سا کاروبار تھا جہاں پر میرا دفتر تھا اس کا تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا۔ جب وہ دفتر چھوڑا تو مالک پلازا نے دفتر میں موجود تمام سامان کرایہ کی مد میں اپنے قبضے میں کرلیا۔ بس ہم نے جان بچا کر لاہور میں پناہ حاصل کر لی۔'
رادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ پشاور میں کسی نہ کسی طرح دال روٹی چلتی رہتی تھی مگر لاہور تو نیا شہر ہے۔ 'میں ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینیئر ہوں پھر بھی مجھے کوئی ملازمت نہیں مل رہی بلکہ دکان پر بھی کوئی کام نہیں ملتا۔ لوگ میری سفید داڑھی اور بال دیکھ کر کہتے ہیں کہ بابا جی آپ کو اب کیا نوکری دیں گے اور آپ کیا کریں گے؟ جس وجہ سے میرے تین بیٹوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے وہ مختلف دکانوں پر سیلزمین کی ملازمت کرتے ہیں جس کا مجھے انتہائی دکھ ہے مگر چلیں کسی حد تک ان کی زندگیاں تو محفوظ ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو پشاور، خیبر پختوںخوا اور قبائیلی علاقہ جات میں امن قائم ہو چکا ہے مگر سکھوں کے لیے امن قائم نہیں ہو سکا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’2014 کے بعد سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی تھی جس کا پہلا نشانہ میرے دوست بھگوان سنگھ بنے تھے اور سنہ 2018 میں بھی نشانہ بننے والے چرن جیت سنگھ میرے دوست تھے جبکہ کئی سکھ اغوا برائے تاوان کا شکار ہوئے ہیں جس میں مجھے ذاتی طور پر معلومات ہیں کہ رابن سنگھ اور رنجیت سنگھ کو تاوان دے کر چھڑایا گیا تھا۔‘
رادیش کے مطابق وہ ہی نہیں بلکہ کئی خاندانوں نے حالیہ دنوں میں پشاور چھوڑا ہے اور کئی ایک انڈیا بھی چلے گئے ہیں جس میں ان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں اور سکھوں کے انڈیا جانے کا سلسلہ سنہ 2004 سے شروع ہے۔
جب اس سلسلے میں صوبائی حکومت سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے کہا کہ وہ رادیش سنگھ عرف ٹونی بھائی کو نہیں جانتے اس لیے کچھ نہیں کہیں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبرپختوںخوا پولیس پورے صوبے کے عوام کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے اور سکھوں سمیت سب کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
ترجمان کے مطابق پولیس سکھوں کے قتل کی تفتیش کررہی ہے اور کچھ ملزماں گرفتار بھی ہوئے ہیں اور سب کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
شاور کو چھوڑ کر اسلام آباد سے تقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر صوبہ پنجاب میں واقع سکھوں کے مقدس مذہبی مقام حسن ابدال میں آباد ہونے والے سکھ خاندان کے سربراہ مہان سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ پشاور ان کا آبائی علاقہ ہے مگر وہاں پر ہر وقت ان کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی تھی جس وجہ سے اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے زمین، جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر حسن ابدال منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
'چرن جیت سنگھ کے قاتلوں کی ٹارگٹ کلنگ اور پھر پولیس کی جانب سے گرفتار ملزمان کی عدالت سے ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہونے کے بعد تو کوئی کنجائش باقی ہی نہیں بچی تھی کہ پشاور میں رہائش اختیار کر سکتے۔'
سکھ فیڈریش آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقہ جات خیبر ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں اس صدی کے آغاز میں شروع ہونے والے دہشت گردی سے پہلے 40 ہزار کے لگ بھگ سکھ خاندان موجود تھے، جن کی ایک بڑی تعداد 2004 میں پشاور منتقل ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد انڈیا بھی چلی گئی تھی۔ اسی طرح مالاکنڈ ڈویژن میں 2008 کے طالبائزیشن دور کے اندر بھی سکھ اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
سکھوں کی ملک گیر تنظیم کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں سے منتقل ہونے والوں کی بڑی تعداد نے پشاور میں رہائش اختیار کی تھی مگر کچھ نے پنجاب کے علاقوں کا رخ بھی کیا تھا۔ 2014 تک تو یہی سمجھا جاتا رہا کہ دہشت گردی سب کے لیے ہے مگر جب 2014 کے بعد امن قائم ہونا شروع ہوا تو اس کے بعد سے سکھوں کو ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتو ں کا نشانہ بنایا جانا شروع ہو گیا جس میں اب تک دس سکھوں کی ٹارکٹ کلنگ ہوئی ہے جو کہ ریکارڈ پر ہے جب کہ کئی ایک اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
پشاور کے تاریخی شواہد اکٹھے کرنے والے اور اس پر نظر رکھنے والے پشاور کے مقامی قلم کار ہمایون اخونذادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پشاور، قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختوںخوا کی تاریخ، ثقافت، تمدن میں سکھوں کا بہت اہم کردار رہا ہے اس صدی سے پہلے سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے۔ ان کے تمام چھوٹے بڑے گرودواروں میں عبادات ہوتی تھیں۔ وہ میلے ٹھیلوں کا انعقاد کرتے تھے جس میں مقامی مسلمان بھی شریک ہوتے تھے اور سکھ مسلمانوں کے تہواروں میں شریک ہوا کرتے تھے مگر اب تو ان کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے وہ تمام روایتی میلے ٹھیلے بھی ختم ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سکھ بہت بری تعداد میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment