Saturday, May 26, 2018

ایسی کتاب کوئی سیاستدان لکھتا تو غدار کے فتوے لگتے، رضا ربانی

سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں
رضاربانی کے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے کے اقدام کو ایوان بالا میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کیا جنرل اسد درانی نے وفاقی حکومت سے کتاب لکھنے سے قبل اجازت لی تھی جس پر چیئرمین سینیٹ نے وزیر دفاع خرم دستگیر سے جواب طلب کر لیا۔رضا ربانی نے کہا کہ ایسی کتاب کوئی سیاستداں لکھتا تو غداری کے فتوے لگتے، عام شہری بھی ایسا کام کرتا تو اسوقت پورے ملک میں احتجاج بھی ہو رہا ہوتا، فاٹا کے معاملے پر پارلیمنٹ نے کٹھ پتلی کام کیا،افسوس ناک بات ہےپارلیمنٹ خود فاٹا اصلاحات کیلئے کام نہیں کرسکی بلکہ باہرسےاسے کہا گیا، پھرنیشنل سیکیورٹی کونسل نے فاٹا کی اصلاحات کا کہا، پارلیمنٹ نےپہلےکوشش کی فاٹااصلاحات کوعملی جامع پہنایاجائےلیکن یہ نہیں ہواہے۔ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہا کہ اگر یہ کتاب کسی عام
شہری یا پاکستانی سیا ستد ا ن نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا، کتاب لکھنے والے سیاستدان پر نہ صرف غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے بلکہ اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا، رضاربانی نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف انڈیا اور پاکستان کے تعلقات خراب ترین سطح پر ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ایسی کتاب کی رونمائی ہو رہی ہے جو دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے لکھی ہے، میاں رضاربانی نے سوال اُٹھایا کہ کیا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے اپنے ادارے یا وفاقی حکومت سے اس بات کی اجازت لی تھی کہ وہ اپنے انڈین ہم منصب کے ساتھ مل کر کتاب لکھ رہے ہیں؟رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا تو کیا اُنھوں نے اس کتاب کے بارے میں وفاقی حکومت یا وزارت دفاع کو آگاہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کی ایک تاریخ ہے، بھارت لائن آف کنٹرول پر آئے روز خلاف ورزیاں کر رہا ہے جس میں مسلح افواج کے علاوہ سویلیں شہری نشانہ بن رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیر قانون محمود بشیر ورک سے اس پر جواب کیلئے کہا تو وزیر قانون نے کہا کہ اُنھیں اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں حکومت سے اجازت لینے کے بارے میں علم نہیں ہے۔ وزیر دفاع اس پر جواب دیں جس پر چیئرمین سینٹ نے وزیر دفاع سے جواب طلب کر لیا ہے۔ سینیٹر مشتاق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ امریکی کرنل جوزف بارے میں کہا گیا تھا کہ اسے یہاں سے جانے نہیں دیا جائے گا لیکن وہ پھر بھی پروٹوکول کے ساتھ امریکا جاچکا ہے، شکیل آفریدی کے بارے میں بھی بتایا جائے کہ وہ کہاں ہے کیونکہ جنر ل اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی کی کتاب سپائی کرائنکلز میں لکھا گیا ہے کہ جس شخص نے شکیل آفریدی کی امریکا کے لیے جاسوسی کی تھی اسے بھی بحفاظت امریکا پہنچا دیاگیا ہے، ہمیں ان معاملات کا کتاب کے ذریعے علم ہوتا ہے اور ایوان کو بے خبر رکھا جاتا ہے، ایوان کو آگاہ کیا جائے جس پر چیئرمین سینٹ نے وزیرداخلہ سے ایوان میں جواب طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان کے ضلعی چاغی میں صرف چھ گھنٹے بجلی آتی ہے اور میرے حلقےمیں 12گھنٹے بجلی آرہی ہے جس پر کیسکو سے جواب طلب کر لیا گیا۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی طالبہ سبیکا کو شہید کر دیا گیا، پاکستان کی بیٹی کو امریکی دہشت گرد نے شہید کیا، پاکستان ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف رہا، ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، سبیکا کو ایوارڈ دیا جائے جس پر چیئرمین سینیٹ نے رپورٹ طلب کر لی۔ سینیٹر بہرہ مند خان نے کہا کہ پاکستان سے مختلف گروپس عمرے اور حج کے بہانے لوگوں کو سعودی عرب لے جاتے ہیں اور وہ بھیک مانگتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمن نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کا پانی روکنے کے معاملے پر کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم تعمیر کیا گیا جبکہ اس سے پہلے بگلہار ڈیم تعمیر کیا گیا اور پاکستان کو پانی روک لیا، کشن گنگا ڈیم پر پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور چار رکنی وفد واشنگٹن بھیجا گیا ہے، یہ معاملہ بہت اہم ہے اور بتایا جائے کہ پاکستان اس معاملے کو عالمی بنک اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے کس طرح پیش کررہا ہے جس پر چیئرمین سینیٹ نے وزارت خارجہ سے رپورٹ طلب کر لی۔

https://jang.com.pk/news/498136#_

No comments:

Post a Comment