پاکستان پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے 30نومبر2017ء کو اپنے قیام کے پچاس سال مکمل کرلیے۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 30نومبر1967ءکو لاہور میں ڈاکٹرمبشر حسن کی رہائش پرتشکیل پانے والی اس جماعت نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی ایک نشیب وفراز دیکھے ہیں۔چاربارحکومت کی ہے۔چار باراپوزیشن کا کرداراداکیا ہےاورچارہی مارشل لاء بھگتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی اور جماعت ایسی نہیں جسےاپنے سیاسی سفر کے دوران اس قدرمقدمہ بازیوں، کال کوٹھڑیوں، کوڑوں، پھانسیوں، جلاوطنیوں، سمجھوتوں،سازشوںاوردھڑے بندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ذوالفقارعلی بھٹواور ان کے ساتھیوں نے پارٹی کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی تھی۔تیسری نسل تک آتے آتے اگرچہ ان کی غرض وغائت میں واضح تبدیلی آئی ہے لیکن اس کے باوجودجمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دینے کا دعویٰ اگر کوئی جماعت کرسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشرحسن،شیخ رشید،حنیف رامے، خورشید حسن میر،غلام مصطفیٰ کھر،مخدوم طالب المولیٰ، حق نواز گنڈاپور،رفیع رضا، عبدالحفیظ پیرزادہ، حیات شیرپائو،معراج محمدخان،میر رسول بخش تالپور،باسط جہانگیر شیخ اور کمال اظفر شامل تھے۔ذوالفقارعلی بھٹو نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر پارٹی کابنیادی سوشلسٹ ڈیموکریٹک منشور ترتیب دیا تھا۔تاہم 1975ء میں جے اے رحیم کے بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے اور انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔اسی دوران ایک اور بانی رکن معراج محمد خان بھی پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے ۔
1979ء میں جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں ذوالفقارعلی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد پیپلزپارٹی کے لیے قدم جمانا انتہائی مشکل تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو کی ثابت قدمی نے بہت سے سینئررہنمائوں کی کنارہ کشی اور بے وفائی کے باوجود پارٹی کا شیرازہ نہیں بکھرنے دیااور بعدازاں بے نظیر بھٹو نے جس جرأت مندی کے ساتھ ضیائی آمریت کا مقابلہ کیا اورپارٹی کے بنیادی نظریے اور فلفسے کوآگے بڑھایا،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
پیپلزپارٹی کامنشور اگرچہ اب بھی وہی ہے جو 1967ء میںلکھا گیا تھا لیکن اس دوران ملکی و غیرملکی سطح پر رونماہونے والی تبدیلیوں نے اس کے فکر وفلفسے کوخاصی حدتک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔اس دوران بھٹوکی پھانسی ہوگئی،اسلامی بلاک کا خواب چکنا چور ہوا، رُوس کے ٹوٹنے سے کمیونسٹ بلاک کے ٹکڑے ٹکڑےہوئے، چین کا کمیونزم اس کے اپنے حدودِ اربعہ سے باہر تانک جھانک نہیں کرتا،طالبان پیداہوئے، القاعدہ آئی، افغان جنگ کہاں سے شروع ہوئی اور کس سمت کی طرف چلی گئی اور رفتہ رفتہ انڈونیشیا، ایران،شام، لیبیااورالجیریاکے وہ دوست بھی جاتے رہےجومشکل وقتوں میں پیپلزپارٹی کا سہارابنتے تھے۔
یقینی طور پر پیپلزپارٹی کی قیادت ان حالات وواقعات سے خود کوعلیحٰدہ نہیں کرسکتی تھی۔چنانچہ اس کی طرزِ سیاست میں بنیادی تبدیلیاں پیدا ہونا ایک فطری امرتھا۔بےنظیربھٹو کافلسفہءمفاہمت بھی وقت کا تقاضا تھااوربے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کا ’’پاکستان کھپے‘‘ کانعرہ بھی وقت کی ضرورت۔اس کے بعد بلاول نے جب ’’جمہوریت ،بہترین انتقام‘‘ کی بات کی تویہ واضح ہو گیا کہ پیپلزپارٹی کی جدوجہدکسی انقلاب کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے ہے۔
بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے نوازشریف کے ساتھ مل کر ’’میثاقِ جمہوریت‘‘پر دستخط کیے اور پھر جمہوریت کی خاطر شہید بھی ہو گئیں۔ان کے بعد آصف علی زرداری نے تمام اختیارات پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کو منتقل کرکے ایک جمہوری صدر ہونے کا ثبوت دیا۔انہی کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کانام دیا اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات منتقل کیے۔
بھٹو حکومت اور اس کے بعد پیپلزپارٹی سے الگ ہونے والوں نے الگ پارٹیاں بھی بنائیں لیکن کارکن جو’’ اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتے تھے ،بھٹو ہی کے نام کا پرچم تھامے رہے۔نہ معراج محمدخان کی قومی محاذآزادی چلی،نہ غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی کسی کے کام آئی اور نہ ہی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد غنویٰ بھٹو کی قیادت میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی (شہیدبھٹو)جیالوں کا لہو گرما سکی۔
پیپلزپارٹی ذوالفقارعلی بھٹوسے ہوتی ہوئی اب ان کے نواسے بلاول بھٹو تک پہنچ چکی ہے ۔بلاول کی اپنی عمر 29سال ہے جبکہ ان کی پارٹی پچاس برس کی ہو گئی ہے ۔جس کے پیچھے جدوجہد اورلازوال قربانیوں کی ایک تاریخ ہے۔ذوالقارعلی بھٹوکے وقت پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔بے نظیربھٹو بھی چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھیں۔ان کے بعد آصف علی زرداری بھی وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن حالات کا جبر کہیے یا کچھ اور،وفاق کی علامت سمجھی جانے والی یہ پارٹی اب عملی طور پر سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اس تاثر کو زائل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment