سی آئی اے کی حال ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق جاری کی گئی اکتوبر1978 ء کی دستاویز کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں رہنے کا واحد جواز ذوالفقار علی بھٹو کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا۔ امریکی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا کہ جنرل ضیا کا اقتدار میں رہنا افواجِ پاکستان میں ان کی مقبولیت پر منحصر ہے۔
ڈان اخبار میں شائع شدہ سی آئی اے کی جائزہ رپورٹ کے مطابق اگر ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑ دیا گیا اور انجام سے ہمکنار نہ کیا گیا تو افوجِ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق غیر مقبول ہو جائیں گے۔
کئی دہائیاں بیتنے کے بعد یہ رپورٹ پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ بھٹو کو سی آئی اے اور جنرل ضیاء الحق مل کر بھی مار نہ سکے اور بھٹو تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے امر ہو گیا۔
مار ڈالے گا اُسے جرم کا احساس ندیم
قتل کر کے جسے مقتول پہ سبقت نہ ملی
اس نوعیت کی رپورٹ کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے جنرل ضیاء کو یہ پیغام بھی دینا تھا کہ یہ اُن کی بقا اور اقتدار میں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹائیں۔ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سازش کا تانا بانا ایسے بُنا گیا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو اس وقت ان کے قریبی رفقاء غلام مصطفےٰ کھر۔ خورشید حسن میر۔ حنیف رامے۔ جے اے
رحیم وغیرہ کو ان سے دور کر دیا گیا۔
تو دوسری جانب مذہبی قوتوں کو نادیدہ اور خفیہ قوتوں کے اشارے سے نظامِ مصطفےٰ کے نام پر چلنے والی تحریک کے نام پر سڑکوں پر لایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنی سیاسی ٹیم سے دور ہوتے گئے۔
اور ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل جیلانی اور چند دیگر جاگیر داروں کے زیرِ اثر غلط فیصلے کرنے لگے۔
ان تمام اسباب کے با وجود بھٹو اپنے دیگر سیاسی قائدین اور جماعتوں کے مقابلے میں مقبول ترین رہنما تھے۔
لہٰذا 5 جولائی1977ء کی شب افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مار کر عوام کو اِن کے حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا۔
آگے چل کر اس سازش میں عدلیہ بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالتی ہے اور پھر بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر مہرِ تصدیق کرنے کیلئے فوجی حکمران کی جانب سے پنڈی جیل کا انتظام جیل پولیس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے افواجِ پاکستان کے سپرد کر دیا گیا۔ جس کی نگرانی جنرل راحت لطیف کر رہے تھے اور جیل آفیسر کے فرائض کرنل رفیع سر انجام دے رہے تھے۔
اِن تمام تر واقعات کو بعد ازاں کرنل رفیع نے کتابی شکل میں بھی قلمبند کیا اور لکھا کہ کیسے بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیا نے کرنل رفیع کی ستائش کی اور انہیں بیرونِ ملک سفارتخانے میں دفاعی سفارتکار بنا کر بھیج دیا گیا۔
اس سازش کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھتے ہوئے مجھے نمل یونیورسٹی کے سابق ریکٹر بریگیڈئیر واثق یاد آئے۔جن دنوں جنرل ضیاء الحق کور کمانڈر ملتان تھے بریگیڈئیر واثق ان کے ماتحت تھے کا بیان کیا گیا ایک واقعہ یاد آگیا۔
بریگیڈئیر واثق کے بقول ملتان تعیناتی کے دوران جنرل ضیاء الحق نے افسران اور جوانوں سے یہ کہا کہ وزیرِ اعظم بھٹو ملتان تشریف لا رہے ہیں لہٰذا ان کے استقبال کے لئے ہم سب کو مع فیملی جانا چاہئے۔ یہ بات فوج کے ڈسپلن اور روایات کے خلاف تھی۔ لہٰذا دورانِ میٹنگ نوجوان میجر نے اس پر اعتراض کیا کہ جب بھٹو فیملی کے ہمراہ
نہیں آ رہے تو ہم فیملی کے ہمراہ ان کا استقبال کیوں کریں۔
بریگیڈئیر واثق کے بقول جنرل ضیاء الحق نے نو جوان میجر کے نکتۂ اعتراض کے جواب میں اچھی خاصی تقریر جھاڑ دی اور کہا کہ ہم سب کو منتخب وزیرِ اعظم بھٹو جیسے عظیم قومی رہنماء کا شایانِ شان استقبال کرنا چاہئے۔ چند ہی روز میں نوجوان میجر کا تبادلہ شمالی علاقہ جات کر دیا گیا۔
جس قومی رہنما کا استقبال آرمی ڈسپلن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا گیا ہو، چند ہی برس میں وہ مذہبی قوتوں۔ عدلیہ اور افواجِ پاکستان کی زیرِنگرانی پھانسی کا پھندا کیسے جھول سکتا ہے؟ یقیناً یہ سوال جواب طلب ہے اور نہ جانے کب ہم ان قومی حقائق سے متعلق حکومتِ پاکستان کے مراسلات اور سرکاری دستاویزات کب افشا کریں گے۔ بھلا ہو امریکہ کے اطلاعات تک کے رسائی کے قانون کا کہ جس کے طفیل یہ ساری تفصیلات اُجاگر ہوئیں۔
https://ppppunjab.wordpress.com/
No comments:
Post a Comment