Thursday, December 29, 2016

دمادم مست قلندر کی گنجائش – سنئیر صحافی نصرت جاوید کا موجودہ سیاسی صورت حال پر فکر انگیز کالم

دمادم مست قلندر کی گنجائش – سنئیر صحافی نصرت جاوید کا موجودہ سیاسی صورت حال پر فکر انگیز کالم
bbz
سیاست دان لوگوں کو مصروف رکھنے اور اپنا لہو گرم رکھنے کےلئے کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی چار نکات دے رکھے تھے۔ نواز شریف نے ان نکات پر مناسب انداز میں غور کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ جبکہ ان میں سے کم از کم وہ نکتہ جو قومی سلامتی کی پالیسیوں پر پارلیمان کی نگرانی چاہتا ہے، ان کی حکومت کو مستحکم کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال 27 دسمبر کی ایک ڈیڈ لائن تھی جس کے بعد ”دمادم مست قلندر“ ہونا تھا۔
”دمادم مست قلندر“ کے بارے میں فرض کر لیا گیا کہ یہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دھرنے یا اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن والی کوئی شے ہو گی۔ 27 دسمبر 2016ءکو گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے مگر ایسی تحریک کا اعلان نہیں کیا۔ ہمارے عقلِ کل بنے اینکرز خواتین و حضرات پریشان ہو گئے۔
مجھے اپنے ساتھیوں کی حیرانی پر حیرانی اس لئے ہوئی ہے کہ ان کی اکثریت 2013ءکے انتخابات کے بعد سے یہ طے کر بیٹھی ہے کہ پیپلز پارٹی 2008ءمیں قائم ہوئی حکومت سے جڑی کرپشن کہانیوں کی بدولت ختم ہو چکی ہے۔ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت اس حکومت نے ضرور مکمل کی مگر اسے بنانے اور چلانےوالی پارٹی ختم ہو گئی۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تو اس جماعت کا کوئی نام بھی سننا نہیں چاہتا اور اس جماعت کے اس وقت تک وفاقی حکومت بنانے کے کوئی امکانات ہی نظر نہیں آتے جب تک وہ اس صوبے میں ایک مو¿ثر انتخابی قوت کی صورت نظر نہ آئے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے بعد میرے ساتھی جانے کس بنیاد پر 27 دسمبر 2016ءکے بعد ”دمادم مست قلندر“ کے امکانات کا جائزہ لینے میں پوری تندہی سے مصروف رہے۔
2013ءکے انتخابات نے یہ بات بھی طے کر دی کہ پاکستان اور خاص کر پنجاب میں عمران خان اور تحریک انصاف ہی ”اصل اپوزیشن“ ہیں۔ ان کے جلسے بھاری بھرکم اور جاندار ہوتے ہیں۔ سوشل اور ریگولر میڈیا پر بھی اس جماعت کے مرتب کئے بیانیے کا اجارہ ہے۔ اس بیانیے سے اتفاق نہ کرنےوالے صحافیوں کو راشی اور بدعنوان کہا جاتا ہے۔
ایک بھرپور عوامی قوت ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف 2014ءمیں دیئے دھرنے کے باوجود نواز حکومت سے نجات دلانے کےلئے ”ایمپائر“ کی اُنگلی کھڑی کروانے میں ناکام رہی۔ 2016ءکا اپریل شروع ہوتے ہی اسے ”پانامہ“ مل گیا تھا۔ اس جاندار سکینڈل کو بھی وہ اسلام آباد کا لاک ڈاﺅن کروانے کےلئے استعمال نہ کر پائی۔ جنرل راحیل شریف عزت و احترام سے رخصت ہو گئے تو وہ پارلیمان میں واپس آگئی۔ اب عمران خان اور ان کے ساتھی یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ شاید نواز شریف کےساتھ وہی سلوک کرے جو افتخار چودھری کے دنوں میں یوسف رضا گیلانی کےساتھ ہوا تھا۔ احتجاجی تحریک کے ذریعے نواز شریف کو گھر بھیجنے کا خیال البتہ رد کر دیا گیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو کام عوامی مقبولیت کی انتہاﺅں کو پہنچے عمران خان اور تحریک انصاف نہ کر پائے وہ عقل کل بنے اینکر خواتین و حضرات کی جانب سے غیر مقبول ٹھہرائی پیپلز پارٹی کیسے حاصل کر سکتی تھی۔
تحریک انصاف بھی بالآخر قومی اسمبلی میں لوٹ آئی ہے اور قومی اسمبلی میں آنے کا اعلان اب بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے بھی کر دیا ہے۔ بحث اب یہ ہو رہی ہے کہ دونوں باپ بیٹا قومی اسمبلی میں آکر اس حکومت کا کیا بگاڑ لیں گے۔ آصف علی زرداری کے متحرک ہونے کو بلکہ پیپلز پارٹی کےلئے ”بدشگونی“ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس ”بُری خبر“ کا اظہار بھی کہ وہ بلاول کو کھل کر کھیلنے کی Space نہیں دے رہے۔ اس بات کا احساس کئے بغیر کہ پیپلز پارٹی کی ناکامی اور زوال کی تمامتر ذمہ داری آصف علی زرداری کے سرڈالی جاتی ہے۔
آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو بچایا یا تباہ کیا؟ اس سوال پر کھلے ذہن کے ساتھ کبھی غور ہی نہیں ہوا۔ میں اس سوال پر تفصیلی بحث کرنے کو اکثر مچل جاتا ہوں۔ کالم لکھتے وقت مگر کئی موضوعات آجاتے ہیں جو فوری توجہ کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس بحث میں اُلجھنے سے اس لئے بھی اکثر گریز کیا کہ ٹھوس حقائق کو لگی لپٹی لگائے بغیر بیان کر دیا تو میرے کئی دوست عمر بھر کےلئے ناراض ہو جائیں گے۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جہاں نئے دشمن بنانے سے گھبراتا ہوں کیونکہ نئے دوست بنانے کا وقت باقی نہیں رہا۔
فی الوقت یہ بیان کرنا کافی ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی پنجابی قیادت میں کئی لوگ ہیں جو خود کو بلاول بھٹو زرداری کا بیرم خان بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے میں ایک ”اورنگ زیب“ ڈھونڈ رہے ہیں جو آصف علی زرداری کو اس دور کا ”شاہ جہاں“ بنا کر ملکی سیاست سے غیر متعلق بنا دے۔ ان ”بیرم خانوں“ کی خدمت میں عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان بابر اور ہمایوں والا رشتہ ہے۔ مجھے یہ رشتہ تبدیل ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ پیپلز پارٹی میں رہ کر سیاست کرنا ہے تو باپ بیٹے کے درمیان تعلق کی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس حقیقت سے گزارہ مشکل نظر آئے تو پیپلز پارٹی کےساتھ جڑے رہنا ضروری تو نہیں۔ تحریک انصاف ہے ناں۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر اس میں چلے جائیں۔ وہاں جانے کا خیال آتے ہی مگر بلاول کے ممکنہ بیرم خانوں کو فیصل آباد کا راجہ ریاض، اوکاڑے کا اشرف سوہنا اور صمصام بخاری وغیرہ یاد آجاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی اگلی صفوں میں یقینا ابھی تک بہت نمایاں ہیں۔ ان کے ہاتھ سے ”ملتان“ مگر نکل رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے ملتان شہر کے میئر کےلئے جس شخص کے سر پر ہاتھ رکھا اس نے مسلم لیگ نون کے کامیاب امیدوار کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ مخدوم صاحب کا حمایت یافتہ تحریک انصاف کا نمائندہ تیسرے نمبر پر رہا اور 2018ءکے انتخابات میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہیں۔
کامیاب سیاست کےلئے اشد ضروری ہے کہ اپنی کمزوریوں کا بے رحم ادراک کیا جائے۔ 1997ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں صرف 18 نشستوں تک سکڑ گئی تھی۔ محترمہ کو پنجاب میں ہوئے جلسوں میں رونق دکھانے کےلئے طاہر القادری سے اتحاد کرنا پڑا۔ مرحوم اقبال حیدر جیسے ”نظریاتی جیالے“ اس اتحاد پر بہت تلملایا کرتے تھے۔ خاص کر اس وقت جب ”قادری-قادری“ کا ورد کرتے ہوئے طاہر القادری کے مریدانِ باصفا محترمہ کی قیادت میں ہوئے جلسوں پر قابض ہوتے نظر آتے۔ آصف علی زرداری بھی اپنی کمزوریوں کو خوب پہچانتے ہیں۔ اپنے کارڈ کھیلنے کےلئے انہیں مناسب وقت کا انتظار تھا۔
نواب شاہ میں اپنی بہن کی نشست کو خالی کروا کر وہاں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ایک حیران کن فیصلہ ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ وہ جب اس نشست کےلئے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائیں گے تو اثاثوں اور آرٹیکل 62/63 کی بنیاد پر کئی مشکلات کھڑی کی جائیں گی۔ ان مشکلات کے تدارک کےلئے عدالتوں سے رجوع کرنا ہوگا۔
عدالتیں آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کو ”انصاف“ فراہم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتیں۔ اس بار بھی انصاف ”فوری“ ہوتا نظر آیا تو دمادم مست قلندر کی گنجائش بھی نکل آئے گی اور یہ سب ایک نئی سیاسی گیم کا صرف آغاز ہو گا۔ اس مرحلے کا انتظارکر لیتے ہیں
https://ppppunjab.wordpress.com/2016/12/29/%D8%AF%D9%85%D8%A7%D8%AF%D9%85-%D9%85%D8%B3%D8%AA-%D9%82%D9%84%D9%86%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%DA%AF%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%D8%B3%D9%86%D8%A6%DB%8C%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D9%81%DB%8C/

No comments:

Post a Comment