http://mediacellppp.wordpress.com/
30 نومبر پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے کہ جب آج سے 46 سال قبل لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کو متفقہ طورپر اس پارٹی کا چیئرمین منتخب کیاگیا۔
60ء کی دہائی ملکی تاریخ کی اہم ترین دہائی ہے۔ 1962 میں ایوب کا آئین 1964ء صدارتی انتخاب 1965 ء میں پاک بھارت جنگ اور معاہدہ تا شقند، 1966 ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے علیحدگی اور اس علیحدگی کے بعد کراچی تاخیبر بھٹو کی عوام میں پذیرائی کہ جس نے ایوانوں کو ہلا دیا اور ذوالفقار علی بھٹو عوام کے ہر طبقے خصوصاً نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ جنوری 1967 ء اگر تلہ سازش کیس کہ جو سقوط ڈھاکہ کی ذمے دار دستاویز ہے۔ جولائی 1967 میں مادر ملت کے انتقال اور ان کی تدفین کے موقع پر غم زدہ عوام پولیس کا وحشیانہ تشدد کیاگیا۔ اس موقعے پر کئی نوجوان پولیس فائرنگ میں شہید ہوگئے اور ملک بھر میں ایوب حکومت کے خلاف نفرت، بغاوت اور غم وغصہ انتہا پر تھا۔ 25 مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کا مارشل لاء یہ سب 60ء کی دہائی کے واقعات ہیں کہ جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
1966ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت سے علیحدگی کے بعد کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے اور واپسی پر انہوں نے عوامی رابطہ مہم دوبارہ شروع کی۔ انہوں نے ایوب مخالف تمام جماعتوں سے ملاقاتیں کیں۔
اس انقلابی پارٹی نے اپنے قیام سے آج تک گزشتہ 46 سال میں 4 بار عوامی تائید و حمایت اور جمہوریت طریقے سے حق حکمرانی حاصل کیا اور تقریباً 16 سال عوام کی خدمت کی۔ پہلا دور جناب ذوالفقار علی بھٹو کا 20 دسمبر 1971ء سے 5 جولائی 1977 تک تھا۔ دوسرا دور 2 دسمبر 1988 سے 6 اگست 1990 تھا۔ تیسرا دور اکتوبر 1993 سے نومبر 1996 تک اور چوتھا دور 2008 سے 2013 کو یہ تمام ادوار ہر اعتبار سے پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے مشکل ترین دور رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پہلے دور اقتدار میں عوام دشمن استحصالی قوتوں اور سامراج کے گماشتوں کی گھناؤنی سازش کا مقابلہ ہوتا رہا۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا ہر داؤ آزمایا۔
آج 2013 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی تیسری نسل سرگرم عمل ہے۔ طویل جدوجہد اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، شاہ نواز بھٹو کا سازشی قتل، مرتضیٰ بھٹو کا قتل اور بالآ سامراجی قوتوں کی منظم سازش کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل، ان واقعات نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ختم نہیں بلکہ دوام بخش دیا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی بھٹو خاندان کی قربانیوں کے طفیل اور اس کے بے لوث بے خوف کارکنوں کی جدوجہد کے سبب پاکستان کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتی ہے اور رکھے گی۔ تمام مشکلات محدود وسائل بدترین مخالفانہ پروپیگنڈے نیز کفر کے فتوؤں کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان (سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان) میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد بدقسمتی سے حالات نے مختلف رخ اختیار کرلیا اور بیرونی قوتوں کی سازش، حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ کردار نے ایک 146146 عظیم المیہ145145 برپا کردیا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوگئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت ہونے کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات میں اقتدار منتقل کردیا گیا اور 20 دسمبر 1971ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے شکستہ پاکستان کی از سر نو تعمیر کے لئے صدر پاکستان کا حلف اٹھایا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا دوسرا دور جناب ذوالفقار علی بھٹو کی 5 جولائی 1977ء کے مارشل کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگست 1977ء میں فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں لاڑکانہ سے گرفتاری کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد اور قربانیوں نے کارکنوں کو نیا حوصلہ دیا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد پارٹی قیادت بیگم نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو نے سنبھالی اور آمریت کے خلاف 11 سالہ جدوجہد میں بے نظیر بھٹو نے دنیا سے اپنے آپ کو لیڈر تسلیم کرایا۔ 8 اگست 1988ء کو بستی لال کمال میں آمریت جل کر راکھ ہوگئی اس آمریت کی راکھ سے جمہوریت کا گلاب کھل اٹھا اور بے نظیر بھٹو 1988ء میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں لیکن محلاتی سازشوں کے ذریعے انہیں صرف 20 ماہ بعد اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا شہید بے نظیر نے ہمت نہ ہاری اور اپنی ذہانت جدوجہد اور قربانیوں سے 1993ء میں دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوکر سامراجی گماشتوں کا مقابلہ کرتی رہیں اور ان کی کامیابیوں سے خوف زدہ ہوکر انہیں پھر نومبر 1996ء میں اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا اور 27 دسمبر کو انہیں شہید کردیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار پر علیحدہ سے تفصیل سے تحریر کیا جائے گا۔ آج ایک عجیب تاریخی اتفاق عرض کرتا ہوں جناب بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز بھی تقریباً 25 سال کی عمر میں کیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی سیاست کا آغاز 25 سال کی عمر میں کیا اور بلاول بھٹو نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 25 سال کی عمر میں کیا۔ اپنے نانا اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں بھی سامراجی قوتوں کی سازشوں کا سامنا ہے، پاکستان کے غریب عوام آج بھی بھٹو کی تیسری نسل کی قیادت میں اپنے مسائل کا حل تلاش کررہے ہیں غریبوں کارکنوں
محنت کشوں اور کسانوں کی جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔
No comments:
Post a Comment