http://lubpak.com/archives/289215سعودیہ عرب کے ایک نئے منصوبے کے بارے میں امریکہ کے موقر جریدے فارن پالیسی کے مڈل ایسٹ افیرز کے مدیر نے اپنی تازہ رپورمیں انکشاف کیا ہے کہ ان کو تین باوثوق سورسز سے خبر ملی ہے کہ سعودیہ عرب امریکہ سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ شام میں بشارالاسد کی حکومت گرانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو تیز کرے گا-اس لیے اس نے امریکہ سے بالا بالا شامی باغیوں کی فوج کو تربیت دینے کے ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے-مدیر نے خبر دی ہے کہ اس منصوبے سے واقف سعودیہ عرب کی حکومت کے اندر سے اس کے تین سورسز نے اس کو بتایا ہے کہ اس منصوبے کے لیے ریاض حکومت نے پاکستانی انسٹرکٹرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے -http://www.foreignpolicy.com/articles/2013/11/06/saudi_arabias_shadow_war?page=0,1 پاکستان کا کردار اگرچہ اس معاملے میں تربیت دینے تک محدود ہے لیکن ایک دوسرے سورس نے میگزین کو بتایا ہے کہ حال ہی میں سعودیہ عرب اور پاکستان کے درمیان شام کے باغیوں کے دو بریگیڈ جس میں 5 سے 10 ہزار جنگجو ہوں گے کو پاکستانی انسٹرکٹرز سے تربیت دلانے کا پلان زیر بحث آیا ہے- ایک پاکستانی سورس جس کے فوجی حلقوں سے بہت قریبی تعلق ہیں نے میگزین کو بتایا ہے کہ “سعودیہ عرب نے گذرے موسم گرما میں پاکستان سے شام کے مسئلے پر مدد کی درخواست کی تھی”لیکن اس سورس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اس سلسلے میں کہاں تک سعودیہ عرب کے کام آسکتا ہے یہ واضح نہیں ہے-پاکستان کے سعودیہ عرب سے گہرے دفاعی تعلقات رہے ہیں-جبکہ پاکستان میں موجودہ حکومت کے بھی سعودیہ عرب سے گہرے رشتے ہیں کیونکہ سعودی بادشاہ عبداللہ کی کوششوں سے میاں نواز شریف کی جان بچی تھی اور ایک ڈیل کے زریعے یہ سعودی عرب چلے گئے تھے-پاکستان کی ریاست سے ہٹ کر بھی نواز شریف آل سعود کے پارٹنر کی طرح ہیں- پاکستانی فوج سے سعودیہ عرب کے رشتے بہت طاقت ور ہیں جبکہ سعودیہ عرب نے پاکستان کو سب سے زیادہ امداد دی ہے-سعودیہ عرب ،پاکستان سی آئی اے سے ملکر افغان باغیوں کی سویت حمائت یافتہ افغان حکومت کے خلاف حمائت کی اور یہ باغی افغان پرو سویت رجیم کے گرنے کے بعد انتشار کا شکار ہوگئے اور ان کی خانہ جنگی نے طالبان کا راستہ ہموار کیا اور کچھ عرب مجاہدین نے القائدہ بنا ڈالی جس نے اپنی بندوقوں کا رخ اپنے مربیوں کی جانب کرلیا تھا-اور اس پالیسی سے پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر زبردست خون ریزی شروع ہوئی اور ان نام نہاد مجاہدین کے ہاتھوں 80ء کے عشرے سے لیکر اب تک لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پاکستان کی معشیت کو بھی سخت نقصان پہنچا-سعودیہ عرب پاکستان کی سرزمیں کو ایک مرتبہ پھر شامی گوریلوں کے لیے بیس کیمپ میں بدلنے کی تیاری کررہا ہے-وہ پاکستان کے اندر ایسے گوریلوں کی تربیت کا خواہش مند ہے جو یہاں سے شام میں جاکر اسد حکومت کو گرانے کی کوشش کریں-سعودیہ عرب کے اندرونی باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودیہ عرب فرانس،متحدہ عرب امارات،اردن اور پاکستان کی مدد سے ایک منظم باغی فورس تیار کرنے کی کوشش کررہا ہے-اس سے قبل سعودیہ عرب شامی باغیوں کے 50 بریگیڈ کو ایک متد پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے میں کامیاب رہا ہے جس کو اس نے لشکر اسلام کا نام دیا ہے-جس کی قیادت زھران آلوش کے پاس ہے جوکہ سعودی عرب میں باثر وہابی مولوی کا بیٹا ہے- بہت سے تچزیہ نگار کہتے ہیں کہ شام کے اندر جیسے جیسے اسلام پسند باغیوں کی قوت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے سعودی عرب بھی اپنا وزن سلفی گروپوں کے پلڑے میں ڈال رہا ہے-وہ شامی باغی فوج کی قیادت سلفی باغیوں کے ہاتھ دینے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے-اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودیہ عرب کے کیا عزائم ہیں-پاکستان میں طالبان اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی جانب سے طالبان کو شام بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اس سلسلے میں ترکی کے سفارت خانے کا تعاون کی خبریں گردش میں ہیں جبکہ شام سے طالبان باغیوں کی لاشیں شامی حکومت نے پاکستان واپس بھجوائی جانے کی خبر بھی گردش کرتی رہی ہیں- روزنامہ چنگ کی 7 نومبر 2013 ء کی اشاعت میں ادارتی صفحہ پر مظہر برلاس کا ایک کالم شایع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد میں بریلوی علماء اور مشائخ کی ایک کانفرنس مولانا امین الحسنات کی جانب سے بلآغے جانے کی روداد درج کی ہے-مظہر برلاس کے مظابق حسنات اپنے بیان کے دوران انتہائی جذباتی ہوگئے اور انہوں نے پاکستان کے اندر دھشت گردی اور تکفیری آئیڈیالوجی کے پھیلاؤ کا زمہ دار سعودیہ عرب کو قرار دیا (آگرچہ مظہر برلاس نے سعودیہ عرب کا نام نہیں لکھا نہ جانے کیوں؟بس یہ لکھنے پر اکتفاہ کیا کہ وہ ملک جس کے مسلم لیگ نواز کی قیادت سے بہت گہرے تعلقات ہیں) اس سے ایک دن قبل روزنامہ جنگ کے ایک پینل نے ایرانی قونصل جنرل سے ایک ملاقات کی اور ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں ایرانی سفیر نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی حکام نہ جانے کیوں ان سے تعلقات کے ضمن میں سعودی عرب کے حکام کے ردعمل سے پریشان رہتے ہیں اور وہ ملکی امور بارےفیصلے اپنے ملک کی ترجیحات دیکھنے کی بجائے سعودی حکومت کی خوشنودی سے زیادہ مشروط کرتے ہیں-ایرنی قونصلر کا یہ انٹرویو بھی چشم کشا تھا-جبکہ حال ہی میں پاکستان کی سرحد عبور کرکے دھشت گردوں نے 15 ایرانی سرحدی گارڈ کو قتل کرڈالا تھا جن حملہ آوروں کو تلاش کرنے کا مطالبہ ایران پاکستان سے کررہا ہے-ایران -پاکستان تعلقات میں سردمہری آنے اور دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے کے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے میں سعودیہ عرب کا بڑا ہاتھ قرار دیا جارہا ہے- سعودی عرب کے سفیر پاکستان میں ایک وائسرائے کی طرح کام کرتے ہیں-سعودیہ عرب کو پاکستان کی ریاست کے اداروں کے موجودہ اور سابق کئی بااثر عہدے داران اور پاکستان میں دیوبندی اور وہابی طاقتور مولویوں کی حماغت حاصل ہے-باخبر زرایع کا کہنا ہے کہ پی پی پی کی حکومت کے دور میں وفاقی وزیر سید حامد سعید کاظمی کو سعودیہ عرب کے خلاف بیان دینے کی سزا یہ دی گئی کہ ان کو ناجائز طور پر حج فراڈ کیس میں ملوث کیا کیا-ان کو جیل کاٹنا پڑی اور ان پر لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں نے حملہ کردیا اور آج تک ان کی جان خطرے میں ہے-جس کا انہوں نے برملا اعلان کیا ہے- سعودیہ عرب کے مبینہ کردار پر پاکستان کا مین سٹریم میڈیا خاموشی کی چادر تانے رکھتا ہے-اور کسی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی بیان بھی سامنے نہیں آتا-پاکستان سعودیہ عرب سے آنے والی امداد اور اس کے ساتھ درآمد ہونے والی وہابی تکفیری آئیڈیا لوجی کے حملوں سے لہولہان ہوچکا ہے-لیکن اب تک اس کے کردار بارے عام آدمی تک رسائی کو روکنے کی منظم کوشش ہوئی ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں سعودیہ عرب اور اس کے حکمرانوں کے کردار بارے عوام کو زیادہ سے زیادہ باخبر کیا جائے See more at: http://lubpak.com/archives/289215#sthash.EmuwMmlc.dpuf
M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
No comments:
Post a Comment