Sunday, January 20, 2013

لانگ مارچ کا ڈھونگ؛ انقلاب کے نام پر انقلاب کا سبوتاژ

Written by Lal Khan
ریاست کے کچھ حصوں، سامراج اور حکمران طبقات کے دھڑوں کی جانب سے حقیقی انقلابی تحریک کو دبائے رکھنے اور اسے منقسم کرنے کے لیے تحریک کے نام پر ایک اور ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ دائیں بازو کے پر جوش خطیب مولا ناطاہر القادری کے ’لانگ مارچ‘ پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے پانی کی طرح بہائے جار ہے ہیں۔ پیسو ں کے ڈھیر تلے دب چکے سرمایہ دارانہ میڈیا پر بہت بڑی مہم شروع ہے جس سے لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے پہلے سے خوفزدہ حکمران ہیجان میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ٹی وی سے شہرت پانے والے اس شخص کے راتوں رات عروج پر سماج میں کئی طرح کی سازشی تھیوریاں اور قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک مقبول تھیوری کافی دلچسپ ہے۔ کینیڈا کی شہریت اور سامراج سے اس کے تعلقات کی بنیاد پر قادری کا تعلق دنیا میں سونے کی کانکنی کی سب سے بڑی اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ Barrick Gold سے جوڑا جا رہا ہے، جس کی بلوچستان میں ریکو ڈک سونے کی کان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سپریم کورٹ کی جانب سے 1993ء میں نگران حکومت کے جاری کیے گئے لائسنس کی منسوخی کی وجہ سے خطرے میں پڑ چکی ہے۔ بلوچستان میں بغاوت کی بڑی وجوہات میں سے ایک سامراجی لوٹ مار ہے اور اس تنازعے نے پورے خطے کو بربادی اورکشیدگی میں جھونک دیا ہے۔ اگرچہ مولانا کے 23 دسمبر کے جلسے میں بڑا مجمع تھا لیکن اس تعداد کو قادری کے پیروکاروں اور میڈیا نے جان بوجھ کر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ جو بھی ہو اس جلسے میں شریک تعداد اس پر خرچ کیے گئے بے پناہ پیسے کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ شاید یہ اس ملک کی تاریخ کا مہنگا ترین سیاسی جلسہ تھا۔ قادری کے ساتھ ایم کیو ایم کی شمولیت نے کسی کو بھی حیران نہیں کیا۔ ایک ہی وقت میں شکاری اور شکار دونوں کا ساتھ دینا ایم کیو ایم کا پرانا وطیرہ ہے۔ اسلام آباد میں ’شاہراہ دستور‘ کو تحریر سکوائر بنانے کی بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ سچ تو یہ کہ قاہرہ کے اس چوک میں طویل دورانیے کا دھرناحسنی مبارک کا تختہ الٹنے میں فیصلہ کن نہیں تھا۔ در حقیقت نہر سویز کے محنت کشوں کی ہڑتال اور اس تجارتی راستے کی بندش کی دھمکی نے اس جابر حکمران کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ ایک اور عام غلط فہمی یہ ہے کہ لانگ مارچ انقلابات کا موجب بنتے ہیں۔ 1949ء کے انقلابِ چین میں بھی سرمایہ داری کا خاتمہ کسانوں کی اکثریت پر مشتمل سرخ فوج کے لانگ مارچ سے نہیں بلکہ شنگھائی، نان جنگ، پیکنگ، کانٹون اور دیگر صنعتی شہروں کے پرولتاریہ کی عام ہڑتال سے ہوا تھا۔ کراچی کے محنت کشوں کو انقلابی سرکشی کے لیے اسلام آباد تک مارچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس ظالم ریاست کو منہدم کرنے کے لیے انہیں کارخانوں اور معیشت پر قبضہ کرنا ہوگا۔ ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی میں محنت کشوں اور کسانوں کی عام ہڑتال کے ذریعے قدرے آسانی اور بہت کم خونریزی کے ساتھ پاکستان میں سوشلسٹ فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ لاکھوں اور کروڑوں افراد کا متحرک ہونا ہمیشہ انقلابی کردار کا حامل نہیں ہوتا۔ رد انقلابی، رجعتی اور حتیٰ کے فاشسٹ قوتیں بہت بڑے جلسے کر سکتی ہیں۔ ہٹلر، مسولینی، ایل کے ایڈوانی اور کئی دیگر رجعتی اور فاشسٹوں کے جلسے جلوسوں میں لاکھوں کی شرکت ہوتی تھی۔ کسی انقلابی یا رجعتی تحریک میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انقلاب میں عوام شعوری طور پر، جرات، اعتماد اور اپنی مرضی سے نظام اور اور اپنی تقدیر کو بدلنے کی خاطر سیاست کے میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ رجعتی تحاریک دیو مالائی لیڈروں کے گرد بنتی ہیں اور سماج کے پسماندہ حصے ان کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ اس وقت سماج میں پھیلی بے چینی، جمود اور نا امیدی کا جنونی شکل میں اظہار ہوتی ہیں۔ اگر ہم موجودہ وقت میں پاکستان کی صورتحال اور عوام کے مزاج کا تجزیہ کریں تو یہ کافی مدہم دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو درپیش سماجی اور معاشی مصائب پر اسلامی بنیاد پرستوں کی دہشت گردانہ خونریزی اور سامراجی جارحیت اور لوٹ مار جلتی پر تیل ہے۔ سرمایہ داری کا استحصال اور ظلم کبھی بھی اتنا شدید نہیں رہا۔ فوج، عدلیہ، سیاسی اشرافیہ، ملاء، منشیات کے سوداگر اور میڈیا مالکان لوٹ مار کے اس ننگے کھیل میں باہم منسلک ہیں۔ اشرافیہ صرف سماجی بے حسی اور لا تعلقی پھیلا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم دو دہائیوں سے زیادہ مدت سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور قادری بھی اسٹبلیشمنٹ اور مسلط کیے جانے والے سیاسی سیٹ اپ کے لیے کوئی نیا چہرہ نہیں۔ انیسویں صدی کے فرانسیسی اشرافیہ کے متعلق مارکس کے ان الفاظ اور موجودہ حالات میں بہت مماثلت ہے کہ ’’پارٹی آف آرڈر نے ثابت کر دیا ہے۔ ۔ ۔ کہ نہ تو وہ حکمرانی کے قابل ہے، نہ محکومی کے، نہ جینے، نہ مرنے کے، نہ ریپبلک کو قبول کرنے کے، نہ اسے رد کرنے کے، نہ وہ اس حالت میں ہے کہ آئین پر آنچ نہ آنے دے اور نہ اس پوزیشن میں کہ اسے پھینک دے‘‘۔ لیکن مولانا کا تضادات سے بھرپور اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے والا پروگرام سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کا نچوڑ ’بغیر تبدیلی کے تبدیلی‘ ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا پر زور حامی ہے۔ ۔ ۔ جو نظام اس بربادی اور محرومی کی حقیقی وجہ ہے۔ یہ شعبدہ باز لینن کے اس قول کی حقیقت سے مفر کی کوشش میں ہیں کہ ’’سیاست مجتمع شدہ معیشت ہوتی ہے‘‘۔ قادری معیشت کے بغیر سیاست کی، حقیقت کی بجائے ظاہریت کی، علت کے بغیر معلول کی اور مادی حقائق کی بجائے افسانوی باتیں کرتا ہے۔ وہ جاگیر داری کے خاتمے کی بات کرتا ہے لیکن سرمایہ داری کے خاتمے پر ایک لفظ نہیں بولتا۔ جبکہ در حقیقت پاکستان میں جاگیر داری کی محض باقیات ہیں اور ملک کے انتہائی دور افتادہ علاقوں میں بھی سرمایہ دارانہ رشتوں کا جبر حاوی ہے۔ دائیں بازو کے دوسرے سیاست دان بھی انقلاب کی نعرہ بازی کرتے نہیں تھکتے جبکہ یہی بے پناہ دولت مند طفیلیے انقلاب کا شکار بنیں گے اور ان کے مال کو ضبط کر لیا جائے گا۔ آفاقی قانون ہے کہ محنت کشوں اور مجبور عوام کے انقلاب سے قبل جمود کے ادوار میں ہر طرح کے نفرت کے سوداگراور عجیب و غریب رجحانات منظر عام پر نمودار ہوتے رہتے ہیں اور پھر فوراً ہی گوشہِ گمنامی میں غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن در حقیقت قادری اور اس جیسے رجعتی کرداروں کو عوام کو گمراہ اور انقلابات کو روکنے کی خاطر تیار کیا جاتا ہے۔ متلون، غیر مستحکم اور بے صبر نفسیات والی پیٹی بورژوازی (درمیانہ طبقہ) بہت جلد ایسے فریب کاروں کے گرد جمع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سراب بہت جلد ہی تحلیل ہو جاتے ہیں۔ قادری کے پاس تبدیلی کا کوئی ارادہ، پالیسی، پروگرام، طریقہ کار اور لائحہ عمل نہیں۔ سرمایہ داری کے ڈوبنے کے ساتھ بحران مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن تبدیلی آ کر رہے گی۔ اس بے رحم نظام کے ہاتھوں جیتے جی جہنم واصل کروڑوں انسانوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ وہ اس درد اور اذیت سے نجات پانے کے لیے بے قرار ہیں۔ ان کا وقت اب بہت دور نہیں۔ پرولتاریہ اپنے اندر ایک طبقے سے اپنے لیے ایک طبقے میں تبدیل گا۔ اورپھر یہ اپنی قوت کو پہچانتے ہوئے پر زور انداز میں بطور طبقہ تاریخ کو بدل ڈالنے کی خاطر تاریخ کے میدان میں داخل ہو گا۔ صرف اس وقت ہی نظام بدلے گا، صرف اس کو اکھاڑ پھینک کر۔

No comments:

Post a Comment