طالبان کی ایک گولی سے لگنے والا زخم جو ابھی تک ٹھیک نہیں ہو پایا

تحریر: ملالہ یوسف زئی
ترجمہ: فضل ربی راہی (مانچسٹر)

دو ہفتے قبل جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جاری تھا اور طالبان کا تسلط قائم ہو رہا تھا، تو میں بوسٹن کے ایک ہسپتال میں بستر پر لیٹی اپنے چھٹے آپریشن کے عمل سے گزر رہی تھی، کیوں کہ طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا تھا، ڈاکٹروں نے اس کا علاج جاری رکھا تھا۔

اکتوبر 2012 ء میں پاکستانی طالبان کے ایک رکن نے میری اسکول بس میں سوار ہو کر میری بائیں کنپٹی میں گولی داغ دی۔ گولی نے میری بائیں آنکھ، کھوپڑی اور دماغ کو چیر دیا۔ میرے چہرے کے اعصاب کو مجروح کیا، میرے کان کا پردہ توڑ ڈالا اور میرے جبڑے کے جوڑوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

پشاور میں ایمرجنسی سرجنوں نے عارضی طور پر میری بائیں کھوپڑی کی ہڈی کو ہٹا دیا تاکہ میرے دماغ کو چوٹ لگنے کی وجہ سے بننے والے سوجن کے لئے جگہ پیدا ہو۔ ان کی فوری کارروائی نے بلاشبہ میری جان بچائی لیکن جلد ہی میرے اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا اور مجھے ہوائی جہاز کے ذریعے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ مجھے شدید دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور علاج جاری رکھنے کے لئے مجھے ملک سے باہر منتقل کیا جانا چاہیے۔

اس عرصہ کے دوران میں ڈاکٹروں کی جانب سے طاری کردہ کوما کی حالت میں تھی۔ گولی مارنے کے دن سے برمنگھم ( برطانیہ) کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہوش میں آنے تک مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں تھی یا مجھے انگریزی بولنے والے اجنبیوں نے کیوں گھیر لیا تھا۔

میرے سر میں شدید درد تھا۔ میری نظر دھندلا گئی تھی۔ میری گردن میں لگی ٹیوب نے میرے لئے بات کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ کئی دن گزرنے کے باوجود میں بولنے سے قاصر تھی لیکن میں نے ایک نوٹ بک میں چیزیں لکھنا شروع کیں اور جسے میں میرے کمرے میں آنے والے ہر شخص کو دکھاتی۔ میں نے کچھ سوالات لکھے تھے : میرے ساتھ کیا ہوا ہے؟ میرے والد کہاں ہیں؟ اس علاج کا خرچہ کون دے گا؟ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔

میں نے ”آئینہ“ لکھا اور اسے نرسوں کو دکھایا۔ میں اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آئینے میں میں نے اپنے چہرے کا صرف آدھا حصہ پہچانا۔ دوسرا حصہ میرے لئے نامانوس تھا۔ کالی آنکھ، گن پاؤڈر کے چھینٹے، مسکراہٹ سے عاری، چمک غائب، یہاں تک کہ میں اس کو جنبش بھی نہیں دے سکتی تھی۔ میرے آدھے بال منڈوائے جا چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ طالبان نے میرے ساتھ یہ بھی کیا ہے۔ لیکن نرس نے کہا کہ ڈاکٹروں نے اسے سرجری کے لئے منڈوا دیے ہیں۔

میں نے پرسکون رہنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ”جب وہ مجھے ڈسچارج کریں گے تو میں نوکری تلاش کروں گی، کچھ پیسے کماؤں گی، ایک فون خریدوں گی، اپنے گھر والوں کو فون کروں گی اور اس وقت تک کام کروں گی جب تک میں ہسپتال کے تمام بل ادا نہ کروں۔“

مجھے اپنی طاقت پر یقین تھا۔ میں پراعتماد تھی کہ میں ہسپتال سے نکل کر ایک بھیڑیے کی طرح دوڑ لگاؤں گی، ایک شاہین کی طرح اڑوں گی لیکن میں نے جلد ہی محسوس کیا کہ میں اپنے جسم کے بیشتر حصے کو کوئی حرکت نہیں دے سکتی۔ ڈاکٹروں نے امید ظاہر کی کہ میری یہ کیفیت عارضی ہے۔

میں نے اپنے پیٹ کو چھوا۔ وہ سخت اور بے لچک تھا۔ میں نے نرس سے پوچھا کیا میرے پیٹ میں کوئی مسئلہ ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ جب پاکستانی سرجنوں نے میری کھوپڑی کی ہڈی کا کچھ حصہ ہٹایا تو انھوں نے اسے میرے پیٹ میں منتقل کیا تاکہ کچھ عرصہ کے بعد وہ میری دوسری سرجری کر کے اسے دوبارہ سر میں ڈال سکیں۔

لیکن برطانیہ کے ڈاکٹروں نے انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لئے اس جگہ پہ بالآخر ٹائٹینیم پلیٹ (Titanium Plate) لگانے کا فیصلہ کیا جہاں میری کھوپڑی کی ہڈی تھی۔ اس طریقۂ کار کو کرینیو پلاسٹی (Cranioplasty) کہتے ہیں۔ انھوں نے میری کھوپڑی کا ٹکڑا میرے پیٹ سے نکال لیا جو آج میرے بک شیلف میں پڑا ہے۔

ٹاٹینیم کرینیو پلاسٹی (Titanium Cranioplasty) کے دوران انھوں نے میرے کان کے اندر وہاں پہ ”کوکلیئر امپلانٹ“ (Cochlear Implant) بھی شامل کیا جہاں گولی نے میرے کان کا پردہ توڑ ڈالا تھا۔

***

جب میرے خاندان کا برطانیہ میں مجھ سے ملاپ ہوا تو میں نے فزیکل تھراپی اور بحالی کا عمل شروع کیا۔ میں آہستہ آہستہ چلتی، بچے کی طرح قدم اٹھاتی، بات بھی بچے کی طرح کرتی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے دوسری زندگی کا آغاز کیا ہو۔

برطانیہ کی سرزمین پر پہلی دفعہ اترنے کے چھ ہفتے بعد ڈاکٹروں نے میرے مفلوج چہرے کا علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرنے کے لئے انھوں نے ایک بار پھر میرے چہرے کو کاٹ دیا اور میرے چہرے کی شدید کٹی ہوئی رگوں کو اس امید پر دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی کہ بالآخر ان کی بتدریج نشوونما ہوگی اور یہ عضلات کی حرکت میں معاون ہوں گی۔

اعصابی سرجری کے چند ماہ بعد اور چہرے کے باقاعدہ مساج کے ساتھ میرے توازن اور حرکت میں تھوڑی بہتری آئی۔ اگر میں اپنے ہونٹ بند کر کے مسکراتی تو اس طرح میں کسی حد تک اپنا پرانا چہرہ دیکھ سکتی۔ جب میں ہنستی تو اپنے ہاتھوں سے اپنا منھ ڈھانپ لیتی تاکہ لوگ یہ نہ دیکھ پائیں کہ چہرے کا ایک حصہ دوسرے حصے کی طرح کام نہیں کر رہا ہے۔

میں نے آئینے میں جھانکنے یا اپنے آپ کو ویڈیو میں دیکھنے سے گریز اختیار کرنا شروع کیا۔ اپنے ذہن میں میں نے سوچا کہ میں ٹھیک لگ رہی ہوں۔ میں نے حقیقت کو قبول کیا اور خوش رہنے لگی۔

دوسری طرف میرے والدین ہر اس چیز کا علاج چاہتے تھے جو ان کی بیٹی نے کھو دی تھی۔ چناں چہ ہم نے بوسٹن میں ماس آئی اینڈ ائر (Mass Eye & Ear) کے سرجنوں سے ملاقات کی تاکہ ان سے کراس فیشل نرو گرافٹ (Cross Facial Nerve Graft) کے بارے میں بات کریں جو کہ مفلوج چہرے کا ایک پیچیدہ علاج ہے۔

مجھے دو بڑے آپریشنوں کی ضرورت ہوگی۔ 2018 ء میں ڈاکٹروں نے سب سے پہلے میری پنڈلی سے ایک نس نکالی اور اسے میرے چہرے میں نصب کیا جو دائیں طرف سے بائیں طرف تیزی سے حرکت کرتی تھی۔ 2019 ء میں انھوں نے میری ران سے ٹشو لیا اور اسے میرے چہرے کے بائیں جانب لگایا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ نس ٹشو سے جڑ جائے گی اور میرے چہرے کے پٹھوں (Muscles) کو سگنل بھیجنا شروع کردے گی۔

اور اس نے کام کیا۔ بالآخر میں اپنے چہرے کو زیادہ حرکت دینے کے قابل ہوئی۔ لیکن دوسرا طریقۂ کار میرے گال اور جبڑے کے ارد گرد اضافی چربی اور بلغمی سیال پیدا کرنے کا سبب بنا۔ تب ڈاکٹروں نے کہا کہ مجھے ایک اور سرجری کی ضرورت ہے۔

بوسٹن میں 9 اگست کو میں صبح پانچ بجے اٹھی تاکہ میں اپنی نئی سرجری کے لئے ہسپتال جاؤں اور خبر دیکھی کہ طالبان نے زوال پذیر افغانستان کے پہلے بڑے شہر قندوز پر قبضہ کر لیا تھا۔ اگلے چند دنوں میں آئس پیکس (Ice Packs) کے ساتھ میرے سر کے گرد بینڈیج لپیٹ دی گئی اور میں ٹی وی کے سکرین پر دیکھتی رہی کہ ایک صوبے کے بعد دوسرا صوبہ ان لوگوں کے سامنے ڈھیر ہوتا رہا جن کی بندوقیں اس شخص کی بندوق کی طرح گولیوں سے بھری ہوئی تھیں جس نے مجھے نشانہ بنایا تھا۔

جیسے ہی میری طبیعت بحال ہوئی، میں فون پہ فون کرنے لگی، دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو خط لکھنے لگی اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ان کارکنوں سے بات کرنے لگی جو ابھی تک افغانستان میں تھے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران ہم ان میں سے کئی کارکنوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ محفوظ مقام تک پہنچانے میں مدد کرسکے ہیں لیکن میں جانتی ہوں کہ ہم سب کو نہیں بچا سکتے۔

جب طالبان نے مجھے گولی ماری تو پاکستان میں موجود صحافی اور چند بین الاقوامی میڈیائی ادارے پہلے ہی میرا نام جانتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ میں برسوں سے، شدت پسندوں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف بول رہی تھی۔ انھوں نے حملے کو رپورٹ کیا اور دنیا بھر کے لوگوں نے اس پر رد عمل ظاہر کیا۔ لیکن اس کا رد عمل مختلف بھی ہو سکتا تھا اور میری کہانی شاید ایک مقامی خبر میں ختم ہوجاتی کہ ”پندرہ سال کی لڑکی کو سر میں گولی مار دی گئی۔“

”میں ہوں ملالہ“ کا بینر تھامے ہوئے لوگوں کے ہجوم کے بغیر، ہزاروں خطوط اور مدد کی پیش کشوں کے بغیر، دعاؤں اور خبروں میں تذکروں کے بغیر، شاید مجھے طبی امداد نہ ملتی۔ میرے والدین یقینی طور پر خود ان اخراجات کو پورا کرنے کے قابل نہ ہوتے اور شاید میں زندہ نہ رہ پاتی۔

نو سال کے بعد میں ابھی تک صرف ایک گولی سے ہی صحت یاب ہو رہی ہوں۔ افغانستان کے لوگوں نے پچھلی چار دہائیوں میں لاکھوں گولیاں کھائی ہیں۔ میرا دل ان لوگوں کے لئے ٹوٹ جاتا ہے جن کے نام ہم بھول جائیں گے یا انھیں کبھی پہچان بھی نہیں سکیں گے اور جو مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن ان کی مدد کے لئے کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔

***

میری حالیہ سرجری کے زخم تازہ ہیں۔ میں اپنی پیٹھ پر اب بھی وہاں ایک داغ سنبھالے ہوئے ہوں جہاں ڈاکٹروں نے میرے جسم سے گولی نکالی تھی۔

چند دن قبل میں نے اپنی بہترین سہیلی کو فون کیا، وہی لڑکی جو اسکول بس میں اس وقت میرے ساتھ بیٹھی تھی جب مجھ پر حملہ ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے دوبارہ بتائیں کہ اس دن کیا ہوا تھا۔

”کیا میں چیخ اٹھی تھی؟ کیا میں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی؟“ میں نے پوچھا۔
***

”نہیں،“ وہ کہتی ہیں۔ ”آپ پرسکون اور خاموش تھیں، طالب نے جیسے ہی آپ کا نام پکارا، آپ اس کی آنکھوں میں گھور رہی تھیں۔ آپ نے میرا ہاتھ اتنی مضبوطی سے تھام لیا تھا کہ میں کئی دنوں تک اس میں درد محسوس کرتی رہی۔ اس نے آپ کو پہچان لیا اور فائرنگ شروع کی۔ آپ نے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور نیچے جھکنے کی کوشش کی۔ ایک سیکنڈ کے بعد آپ میری گود میں گر گئیں۔“ میری دو ہم جماعتوں شازیہ اور کائنات کو ہاتھ اور بازو میں گولی لگی تھی۔ سکول کی سفید بس خون سے سرخ ہو گئی تھی۔

میرے جسم پر ایک گولی اور کئی آپریشنوں کے نشانات ہیں لیکن اس دن کی کوئی یاد میرے ذہن میں موجود نہیں۔ نو سال بعد میری بہترین سہیلی کو ابھی تک ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔

***

https://www.humsub.com.pk/414635/malala-yousafzai-13/ 

Malala Yousafzai - Healing from one Taliban bullet

Publicado hace un día

Two weeks ago, while U.S. troops withdrew from Afghanistan and the Taliban gained control, I lay in a hospital bed in Boston, undergoing my sixth surgery, as doctors continued to repair the Taliban’s damage to my body.

In October 2012, a member of the Pakistani Taliban boarded my school bus and shot one bullet into my left temple. The bullet grazed my left eye, skull and brain – lacerating my facial nerve, shattering my eardrum and breaking my jaw joints.

The emergency surgeons in Peshawar, Pakistan removed my left temporal skull bone to create space for my brain to swell in response to the injury. Their quick action saved my life, but soon my organs began to fail and I was airlifted to the capital city, Islamabad. A week later, doctors determined that I needed more intense care and should be moved out of my home country to continue treatment.

During this time, I was in an induced coma. I don’t remember anything from the day of the shooting until the moment I woke up at Queen Elizabeth Hospital in Birmingham, U.K. When I opened my eyes, I was relieved to realise I was alive. But I didn’t know where I was or why I was surrounded by strangers speaking English.

I had the most severe head pain. My vision was blurry. The tube in my neck made it impossible to talk. Days later I still couldn’t speak, but I started to write things in a notebook and show them to everyone who came to my room. I had questions: What happened to me? Where is my father? Who is going to pay for this treatment? We don’t have money.

I wrote “mirror” and showed it to the nurses. I wanted to see myself. I recognised only half of my face. The other half was unfamiliar — black eye, sprinkles of gun powder, no smile, no frown, no movement at all. Half of my hair had been shaved off. I thought the Taliban had done this to me too, but the nurse said the doctors shaved it for surgery.

I tried to stay calm. I told myself, “When they discharge me, I will find a job, earn some money, buy a phone, call my family and work until I pay all the bills I owe to the hospital.”

I believed in my strength. I believed I would get out of the hospital and run like a wolf, fly like an eagle. But I soon realised I couldn’t move most of my body. The doctors hoped it was temporary.

Malala at the hospital in 2012

I touched my abdomen; it felt hard and stiff. I asked the nurse if there was a problem with my stomach. She informed me that when the Pakistani surgeons removed part of my skull bone, they relocated it in my stomach and that, one day, I would have another surgery to put it back in my head.

But the U.K. doctors eventually decided to fit a titanium plate where my skull bone had been, reducing the risk of infection, in a procedure called a cranioplasty. They took the piece of my skull out of my stomach. Today it sits on my bookshelf.

Malala's skull bone on her bookshelf

During the titanium cranioplasty, they also added a cochlear implant where the bullet had destroyed my eardrum.

***

When my family joined me in the U.K., I started physical therapy and rehabilitation. I walked slowly, taking baby steps. I talked like a baby too. It felt like starting over, a second life.

About six weeks after I first landed in U.K., the doctors decided to tackle my facial paralysis. To do this, they cut into my face again and tried to stitch my severed facial nerve back together, hoping it would eventually regrow and facilitate movement.

Malala in December 2012

A few months after the nerve surgery and with regular facial massage, my symmetry and movement had improved a little. If I smiled with my lips closed, I could almost see my old face. I covered my mouth with my hands when I laughed – so people wouldn’t see that one side didn’t work as well as the other.

I avoided staring in the mirror or watching myself on video. In my own mind, I thought I looked fine. I accepted the reality and was happy with myself.

My parents, on the other hand, wanted a cure for everything their daughter had lost. So we met with surgeons at Mass Eye and Ear in Boston to talk about a cross facial nerve graft, a complicated treatment for facial paralysis.

Malala after surgery in 2018

I would need two extensive surgeries. In 2018, the doctors first removed a nerve from my calf and inserted it into my face, running from the right side to the left. In 2019, they took tissue from my thigh and implanted it into the left side of my face. They hoped that the nerve would attach to the tissue and begin sending signals to muscles in my face.

And it worked – I finally had more movement in my face. But the second procedure also caused extra fat and lymphatic fluid to build up around my cheek and jaw. The doctors said I needed yet another surgery.

***

Malala after surgery earlier this month

On August 9 in Boston, I woke up at 5:00 am to go to the hospital for my latest surgery and saw the news that the Taliban had taken Kunduz, the first major city to fall in Afghanistan. Over the next few days, with ice packs and a bandage wrapped around my head, I watched as province after province fell to men with guns, loaded with bullets like the one that shot me.

As soon as I could sit up again, I was making phone calls, writing letters to heads of state around the world and speaking with women’s rights activists still in Afghanistan. In the last two weeks, we’ve been able to help several of them and their families get to a safe place. But I know we can’t save everyone.

When the Taliban shot me, journalists in Pakistan and a few international media outlets already knew my name. They knew that I had been speaking against the extremists’ ban on girls’ education for years. They reported on the attack and people around the world responded. But it could have been different. My story might have ended in a local news item: “15 year-old shot in the head.”

Without the crowds of people holding “I am Malala” signs, without thousands of letters and offers of support, prayers and news stories, I might not have received medical care. My parents certainly wouldn’t have been able to cover the costs on their own. I might not have survived.

Nine years later, I am still recovering from just one bullet. The people of Afghanistan have taken millions of bullets over the last four decades. My heart breaks for those whose names we will forget or never even know, whose cries for help will go unanswered.

***

The wounds from my recent surgery are fresh. On my back, I still carry the scar where doctors removed the bullet from my body.

A few days ago, I called my best friend, the girl sitting next to me on the school bus when I was attacked. I asked her to tell me again what happened that day.

“Did I scream? Did I try to run away?” I ask.

“No,” she says. “You stood still and silent, staring into the face of the Talib as he called out your name. You held my hand so tightly that I felt the pain for days. He recognised you and started firing. You covered your face with your hands and tried to bend down. A second later, you fell into my lap.” Two of my classmates, Shazia and Kainat, were shot in the hand and the arm. The white school bus went red with blood.

My body has scars from one bullet and many surgeries, but I have no memory of that day. Nine years later, my best friend still has nightmares.

https://podium.bulletin.com/269177711419542/