پی ڈی ایم نے کراچی جلسے کے لیے باغ جناح کا انتخاب کیوں کیا؟

امر گرُڑو نامہ نگار  

پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آج ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑے جلسے کے لیے تیار ہے۔

اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت کئی جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد نے کراچی میں جلسے کے لیے باغ قائد المعروف باغ جناح کا انتخاب کیا ہے، جہاں  160 فٹ طویل اور 60 فٹ چوڑا سٹیج تیار کر لیا گیا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق سندھ بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کاکنان کی بڑی تعداد جلسے میں شرکت کے لیے قافلوں کی صورت میں کراچی پہنچی ہے۔

باغ جناح کراچی میں کس جگہ پر ہے؟

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کو عام زبان میں مزار قائد کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کراچی کے وسط میں واقع ہے۔

مزار قائد کے لیے تقریباً 132 ایکڑ کا رقبہ مختص کیا گیا تھا، جس میں مرکزی مزار 61 ایکڑ پر محیط ہے، جبکہ باقی رقبے میں سے مشرق کی جانب موجود 15 ایکڑ پر مشتمل حصے میں جناح پارک تعمیر ہے۔ مرکزی مزار اور جناح پارک کے درمیان نیو ایم اے جناح روڈ گزرتا ہے جبکہ جناح پارک سے جنوب کی جانب دو ایکڑ پر مشتمل جناح فٹ بال گراؤنڈ ہے اور مرکزی مزار کے عین جنوب میں واقع 35 ایکڑ رقبے پر باغ قائد واقع ہے، جسے عام طور پر باغ جناح کے نام سے پکارا جاتا ہے۔باغ قائد اور مرکزی مزار قائد کے درمیاں شاہراہ قائدین واقع ہے۔ 

اطراف میں گزرنے والی سڑکوں کے لیے مزار کے لیے مختص 132 ایکڑ میں سے 16 ایکڑ کا رقبہ دیا گیا ہے، مگر یہ سب جگہیں مرکزی مزار کا ہی حصہ ہیں اور مستقبل میں مزار کی توسیع ہونے کی صورت میں انہیں استعمال کیا جائے گا۔

کراچی شہر کی مرکزی شاہراہ کے کنارے پر واقع، محرم الحرام کے مرکزی جلوس یا دیگر حتجاجی مظاہروں کے لیے پسندیدہ مقام نمائش چورنگی سے متصل یہ وہ جگہ ہے جہاں کراچی شہر کی چھ بڑی سڑکیں آکر ملتی ہیں اور شہر کے اکثریتی علاقوں کی مسافر بسوں اور نجی گاڑیوں کا گزر اس جگہ سے ہوتا ہے۔ 

وسیع رقبے پر پھیلا باغ جناح چار دیواری میں بند ہے، اس لیے سیاسی جلسوں کی صورت میں سکیورٹی کے لحاظ سے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ باغ قائد کے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ مزار قائد کے شاہراہ قائدین پر کھلنے والے باب قائدین دروازے کے سامنے ہے۔ سیاسی جلسوں میں شرکت کے لیے آنے والے کارکنان اسی دروازے سے باغ قائد میں داخل ہوتے ہیں جبکہ دوسرا دروازہ باغ قائد کے عقب میں نیو ایم اے جناح روڈ پر ہے، جہاں سے جلسے کے قائدین کا داخلہ ہوتا ہے۔ 

عام دنوں میں شہر کے نوجوان اس وسیع میدان میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں جبکہ گذشتہ چند سالوں سے یہ میدان سیاسی جلسوں کا مرکز بن گیا ہے۔

ماضی میں سیاسی اکھاڑے سمجھے جانے والے کھیلوں کے میدان اب ویران کیوں؟

کراچی میں کھیلوں کے دو میدانوں کو ماضی میں سیاسی اکھاڑا سمجھا جاتا تھا جہاں سیاسی پارٹیاں اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک لیاری کا ککری گراؤنڈ اور دوسرا سولجر بازار میں واقع نشتر پارک ہے۔

ککری گراؤنڈ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں جلسہ کر کے کراچی میں پارٹی کا پہلا دفتر قائم کیا تھا جبکہ بعد میں جب بینظیر بھٹو 1986 میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن پہنچیں تو انہوں نے بھی سندھ میں پہلا جلسہ ککری گراؤنڈ میں ہی کیا تھا۔ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب کے لیے بھی اسی گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا تھا۔

1971 کے عام انتخابات کے دوران جماعت اسلامی نے نشتر پارک میں ایک بڑا اجتماع کیا تھا، اسی طرح الطاف حسین نے 1986 میں نشتر پارک میں جلسہ کرکے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد ڈالی تھی جو بعد میں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔

کراچی میں اپریل 2006 میں ایک دھماکے کے نتیجے میں سنی تحریک کے مرکزی قائدین سمیت 60 افراد ہلاک ہوئے تھے، وہ اجتماع بھی نشتر پارک میں ہی منعقد ہوا تھا۔ 

صحافی ضیا الرحمان کے مطابق ماضی کے یہ دونوں سیاسی اکھاڑے اب شہر کی مرکزی شاہراہوں سے دور سمجھے جاتے ہیں، اس لیے سیاسی پارٹیاں اب ان دونوں میدانوں میں جلسے کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: 'شہر کی آبادی بڑھ چکی ہے اور اس کے ساتھ ٹریفک بھی، اس لیے کارکنوں کی سہولت کے لیے سیاسی پارٹیوں نے مرکزی جگہ کو سیاسی جلسوں کے لیے ترجیح دی ہے۔'

باغ جناح میں کتنے بڑے سیاسی جلسے ہوچکے ہیں؟

فروری 2012 میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے 'بااختیار خواتین، خوشحال پاکستان' کے عنوان سے خواتین کا ایک بڑا جلسہ باغ قائد میں کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے اسی مقام پر عمران خان، جنرل پرویز مشرف، مولانا فضل الرحمٰن اور دفاع پاکستان کونسل کے جلسے بھی ہوچکے ہیں۔

2018 کے عام انتخابات کے دوران عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن مہم کا آخری جلسہ بھی اسی گراؤنڈ میں کیا تھا۔

پی ڈی ایم نے باغ جناح کا انتخاب کیوں کیا؟

اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ 'ویسے تو یہ جلسہ حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہے مگر چونکہ اس کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی ہے تو پارٹی کو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑے گراؤنڈ کی ضرورت تھی اور کراچی میں اس وقت باغ جناغ سے بڑا کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، اس لیے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا۔'

ان کے مطابق: 'اس کے علاوہ یہ جگہ شہر کے مرکزی حصے میں واقع ہے، جہاں کارکن آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور پارکنگ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اس لیے عام طور سیاسی پارٹیاں اس مقام کا انتخاب کرتی ہیں۔'

دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار فیاض نائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خیال ظاہر کیا کہ: '2007 میں جب بینظیر بھٹو وطن واپس آرہی تھیں تو اس دن بھی مرکزی جلسہ باغ جناح میں ہونا تھا جو حملوں کے باعث نہ ہوسکا، تو اس لیے پی پی پی نے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے تاکہ اس دن کا تسلسل رکھا جائے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'چونکہ اپوزیشن جماعتیں 'قائد اعظم کے پاکستان' کی بات کر رہی ہیں تو مزار قائد سے متصل اس مقام کو علامتی طور پر چنا گیا ہے۔'

فیاض نائچ کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں باغ جناح کراچی میں سیاسی جلسوں کا مرکز سمجھا جانے لگا ہے اور یہاں جلسہ کرنے کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی پارٹی کوئی بڑا شو کر رہی ہے۔ 

https://www.independenturdu.com/node/50376 

#PDMJalsaKarachi - Bilawal, Zardari pay tribute to Karsaz bombing victims

 Pakistan Peoples Party (PPP) chairperson Bilawal Bhutto Zardari and co-chairperson Asif Ali Zardari paid tribute on Saturday to the PPP workers who lost their lives in 2007 Karsaz bombings.

Bilawal recalled that around 180 people were killed in the incident and more than 500 injured from a massive gathering that had come out on the roads to welcome late premier Benazir Bhutto upon her return to Pakistan.
In his message on the eve of the bombings’ 13th anniversary, he said, “My party’s workers embraced martyrdom for the restoration of democracy, supremacy of the Constitution and parliament and protection of human rights. This struggle will continue despite… terrorist attacks, fabricated cases, arbitrary cases and [us] receiving threats by the puppet, selected prime minister.”
He said that “all democratic political parties” would gather in Karachi on Sunday to pay tribute to the victims of Karsaz bombings.
Besides, he said, the PDM was an alliance of “all democratic political parties to rid [the country] of the evil destroying democracy, the economy and foreign policy.”
Separately, Zardari too paid tribute to the Karsaz bombing victims, saying that those who lost their lives in the incident had “sacrificed their lives for the Constitution, an empowered parliament and democracy.”
“They have penned down a golden chapter in the political history of the world,” he remarked.
He said such workers were the legacy of the PPP, who had laid down their lives to save that of their leader Benazir.
https://tribune.com.pk/story/2268828/bilawal-zardari-pay-tribute-to-karsaz-bombing-victims

EDITORIAL - #Gujranwalan16thOct - After Gujranwala


Clearly it was not enough for former prime minister Nawaz Sharif to open the Pandora’s Box just once. For little, if anything, about what other opposition leaders said was really different from what they have been saying all along, at least since the last election, but the way in which Nawaz Sharif has thrown down the gauntlet has surely redefined the way politics is going to be practiced in Pakistan from now on. Even his allies in the Pakistan Democratic Movement (PDM), sitting on the stage in Gujranwala, must have been rattled. Surely the government must have been left thinking that it would have been better not to allow the speech to begin with.
Now the ball, as they say, is in the government’s court. So far senior ministers, even the prime minister, have dismissed it in the usual way by playing down the significance of the show. But it will not be so easy to divert everybody’s attention from everything that was said. For the people are indeed burdened very heavily by high prices, reduced wages and not much light at the end of the tunnel. The government has promised on numerous occasions that it will crack down on all mafias responsible for the artificial price hike in essential items, just like the prime minister vowed to do yet again just a few days ago, but these promises have not translated into any sort of action in more than two years and people seem to have had enough of it.
Now all eyes will turn to Karachi to see if the momentum can be maintained. Two is a trend, they say in the world of politics, and if the oppostion is able to pile more pressure, with many more rallies yet to come, then the government will have its work cut out for it. It would be unwise, at this moment, to look to lock horns with the opposition and try to overpower it. The government faces not just political headwinds at the moment, but also considerable anxiety on the economic front. And if the economy collapses, which is a very real possibility, it would itself be responsible for giving the combined opposition yet another stick to beat it with. Therefore it’s best to keep its eye on the ball and not try to meet the opposition punch for punch. As PTI must know from its own days as an agitating opposition party, it’s much easier to make noise when out of power. Now, it’s actions must speak for it and the best it can do is make sure that lives of ordinary Pakistanis are not made any worse by its policies. https://dailytimes.com.pk/679003/after-gujranwala/