M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Thursday, August 27, 2020
پاکستان پیپلزپارٹی اور میڈیا
تحریر: نذیر ڈھوکی
پاکستان کے میڈیا پر اس وقت سخت سنسرشپ عائد ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کو جب اقتدار میں لایا گیا تھا تو وہ سب سے پہلے میڈیا پر ہی حملہ آور ہوئے۔
میڈیا ہاؤسز سے لاکھوں محنت کشوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، جو ملازمتوں پر بحال رکھے گئے ان کی تنخواہ پر بھی تیس سے چالیس فیصد کٹ لگایا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ اس تنخواہ پر راضی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ خود کو نوکری سے فارغ سمجھو۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کی مارکیٹنگ کیلیئے میڈیا ہاؤسز نے غضب کا کردار ادا کیا تھا الیکٹرانک میڈیا کا ستر فیصد ٹائم عمران خان کیلئے وقف تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انکشاف کیا تھا کہ جج فوجیوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ فوجی انہیں نوکری سے نکال سکتے ہیں، ایسے حالات میں میڈیا ہاوسز کے مالکان کیسے جرآت کر سکتے ہیں کا اپنی آزادی کا پرچم سر بلند کرنے کی جسارت کریں، ہاں اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کسی بھی سرگوشی کی حقیقت معلوم کیئے بغیر نشر یا شایع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب 1988 میں اقتدار میں آئیں تو پرنٹ میڈیا کو کاغذ کے کوٹا سے آزاد کیا ، اس زمانے میں پرنٹ میڈیا کو محدود کاغذ مہیا کیا جاتا تھا، مگر ہوا کیا کہ میڈیا اپنی آزادی کے جوھر حکومت کو دکھانے لگی، 1988 سے لیکر آج تک
میڈیا کا نشانہ صدر آصف علی زرداری ہیں، اگر 1988 میں پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر الزام تراشی کی جاتی تو عوام کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ تھا اس لیئے میڈیا کا آسان نشانہ صدر آصف علی زرداری تھے، آپ 1970 سے لیکر 1977 تک کے اخبارات کھنگال دیکھیں، مجیب الرحمان شامی اور دیگر شاہی قلمکاروں کی زہر آلود تحریریں نظر آئیں گی، ایک الطاف حسن جو اب بھی حیات ہیں کو مشرقی پاکستان میں انسانوں کا بہنے والا خون بھی محبت کا زمزمہ نظر آتا تھا۔ سچی بات یہ ہے مجیب شامی ، قادر حسن، الطاف حسن قریشی جیسے درباری دانشوروں نے ایک نہیں کئی نسلوں کو گمراہ کرکے پیٹ پالا ہے، جن نوجوانوں نے اس دور میں ہوش سنبھالا اور شعور پکڑا ہے ان کے سامنے تو ٹی وی چینل ہیں جو جعلی اکاونٹ کی خبریں سنتے چلے آ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سہی میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے سوال کر سکتے ہیں کہ فلودے والے، پکوڑے فروش وغیرہ وغیرہ کے اکاونٹ سے ملنے والی رقم کہاں ہے؟ سوال یہ بھی بنتا ہے عمران خان کی بہین علیمہ خان نے اربوں روپے کس بنک کے ذریعے بیرون ملک بھیج کر پراپرٹی خریدیں تھیں؟
پاکستان کے میڈیا ہاوسز کیلئے یہ خبر نشر کرنا آسان ہے کہ جو شخص کبھی بھی صدر آصف علی زرداری سے ملے تک نہیں انہیں صدر آصف علی زرداری کا قریبی دوست بنانے کے جتن کرتے ہیں کیا، ان سے یہ سچ اگل پایہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، اصل بات یہ ہے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لیکر صدر آصف علی زرداری تک میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی بجائے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز میں کام کرنےوالے محنت کشوں کے طرف دار رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے سیٹھ جنہوں نے محنت کشوں کے خون اور پسینے پر میڈیا ٹاور کھڑے کیئے ہیں کو پرخاش یہ ہے پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔
صحافیوں اور مزدوروں کے ساتھ کیوں ہے؟
میڈیا ہاؤسز سے لاکھوں محنت کشوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، جو ملازمتوں پر بحال رکھے گئے ان کی تنخواہ پر بھی تیس سے چالیس فیصد کٹ لگایا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ اس تنخواہ پر راضی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ خود کو نوکری سے فارغ سمجھو۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کی مارکیٹنگ کیلیئے میڈیا ہاؤسز نے غضب کا کردار ادا کیا تھا الیکٹرانک میڈیا کا ستر فیصد ٹائم عمران خان کیلئے وقف تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انکشاف کیا تھا کہ جج فوجیوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ فوجی انہیں نوکری سے نکال سکتے ہیں، ایسے حالات میں میڈیا ہاوسز کے مالکان کیسے جرآت کر سکتے ہیں کا اپنی آزادی کا پرچم سر بلند کرنے کی جسارت کریں، ہاں اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کسی بھی سرگوشی کی حقیقت معلوم کیئے بغیر نشر یا شایع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب 1988 میں اقتدار میں آئیں تو پرنٹ میڈیا کو کاغذ کے کوٹا سے آزاد کیا ، اس زمانے میں پرنٹ میڈیا کو محدود کاغذ مہیا کیا جاتا تھا، مگر ہوا کیا کہ میڈیا اپنی آزادی کے جوھر حکومت کو دکھانے لگی، 1988 سے لیکر آج تک
میڈیا کا نشانہ صدر آصف علی زرداری ہیں، اگر 1988 میں پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر الزام تراشی کی جاتی تو عوام کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ تھا اس لیئے میڈیا کا آسان نشانہ صدر آصف علی زرداری تھے، آپ 1970 سے لیکر 1977 تک کے اخبارات کھنگال دیکھیں، مجیب الرحمان شامی اور دیگر شاہی قلمکاروں کی زہر آلود تحریریں نظر آئیں گی، ایک الطاف حسن جو اب بھی حیات ہیں کو مشرقی پاکستان میں انسانوں کا بہنے والا خون بھی محبت کا زمزمہ نظر آتا تھا۔ سچی بات یہ ہے مجیب شامی ، قادر حسن، الطاف حسن قریشی جیسے درباری دانشوروں نے ایک نہیں کئی نسلوں کو گمراہ کرکے پیٹ پالا ہے، جن نوجوانوں نے اس دور میں ہوش سنبھالا اور شعور پکڑا ہے ان کے سامنے تو ٹی وی چینل ہیں جو جعلی اکاونٹ کی خبریں سنتے چلے آ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سہی میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے سوال کر سکتے ہیں کہ فلودے والے، پکوڑے فروش وغیرہ وغیرہ کے اکاونٹ سے ملنے والی رقم کہاں ہے؟ سوال یہ بھی بنتا ہے عمران خان کی بہین علیمہ خان نے اربوں روپے کس بنک کے ذریعے بیرون ملک بھیج کر پراپرٹی خریدیں تھیں؟
پاکستان کے میڈیا ہاوسز کیلئے یہ خبر نشر کرنا آسان ہے کہ جو شخص کبھی بھی صدر آصف علی زرداری سے ملے تک نہیں انہیں صدر آصف علی زرداری کا قریبی دوست بنانے کے جتن کرتے ہیں کیا، ان سے یہ سچ اگل پایہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، اصل بات یہ ہے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لیکر صدر آصف علی زرداری تک میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی بجائے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز میں کام کرنےوالے محنت کشوں کے طرف دار رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے سیٹھ جنہوں نے محنت کشوں کے خون اور پسینے پر میڈیا ٹاور کھڑے کیئے ہیں کو پرخاش یہ ہے پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔
صحافیوں اور مزدوروں کے ساتھ کیوں ہے؟
CM Sindh Syed Murad Ali Shah terms unprecedented heavy downpour as ‘disaster’, vows to help people
Sindh Chief Minister Syed Murad Ali Shah has directed commissioner Karachi to coordinate with Pakistan Navy and army for evacuation of people stranded into Sukkuan Nadi and Malir River and keep them in schools. Mr Shah through different reports submitted to him by deputy commissioners learnt that some people living in the bed of Sukkan and Malir Rivers have stranded due to high flooding in them. He directed commissioner Karachi to request Pak Navy and Army to lift the stranded people from the rivers and house them in school building in Malir district. The CM directed Provincial Disaster Management Authority (PDMA) to arrange food, and other necessary staff for them and their children. He also directed the PDMA to arrange tents, dry food items and drinking water for the people to be shifted to camps. The PDMA has informed the district administration that tents, mosquito nets and deterring machines were available with them. The district administration has been urged to generate their demand- The PDMA has provided 63 dewatering machines to district administration to pump out water from the low-lying areas. Heavy rain: Sindh Chief Minister Syed Murad Ali Shah talking to different news channels said that Karachi has received heavy rains on Thursday and expected the same intensity on Friday. He urged people working in different offices to stay in there and don’t go out until the rain is over and water is pumped out. Mr Shah terming the heavy rains in the city as a
disaster’ said it was dangerous situation and we are quied worried about the poor people living in cottages and katcha houses. “I am surprised that our political opponents instead of extending helping hand to the government and the people are criticizing us as if we are responsible for unprecedented heavy downpour,” he said and added “yes, being a government, it is our prime duty to help people, rescue them, shift them to safe place and rehabilitate them and we are working on it,” he said.Murad Ali Shah said that he once rain is over all out efforts would be made to dispose of water and restore normal life in the city.
The chief minister said that he has mobilized district administration, local bodies, water board, PDMA and Sindh police to help people. “The provincial ministers, district administration, district & traffic police are on the roads to helped people,” he said.
“I am personally monitoring the situation and is in constant touch with all the concerned officers and giving them necessary instruction,” he said and added he himself had visited some parts of the city in the early evening.
https://www.ppp.org.pk/pr/23619/
شہری گھروں میں رہیں، باہر نہ نکلیں، وزیراعلیٰ سندھ کی اپیل
اللہ رحم فرمائے، ملیر اور سکھن واسیوں کو کھانا پینا اور چھت فراہم کی ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا بیان
کراچی (27 اگست):وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو 6 بج 10 منٹ پر اپنے دئے گئے بیپر میں عوام کو اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شہر کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا جو کہ بلکل ایسا نہیں، صبح سے ہماری ٹیمیں کمشنر کراچی،واٹر بورڈ ، صوبائی وزراء روڈوں پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اتنی شدید بارش میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب تک بارش رک نہ جائے، میں خود بھی صبح سے مانیٹرنگ کررہا ہوں اور کچھ وفاقی وزراء سے بھی بات کی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے اس پانی کو جلد از جلد نکالا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ آج سے دو دن قبل کراچی میں اگست کے ماہ میں بارش کا 298 ملی میٹر رکارڈ تھا جوکہ دو دن پہلے 345 ملی میٹر بارش پڑنے سے رکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شہر کے تمام شاہراہوں سے سوائے نشیبی علائقوں سے پانی ہر جگہ سے نکل چکا تھا۔ لیکن آج کی شدید بارش کے بعد جو مجھے بتایا گیا کہ ہے کہ فیصل بیس پر 140 ملی میٹر بارش ہوچکی ہے ابھی اور ہونا باقی ہے میری تمام ٹیم رابطے میں ہے ہمارے کمشنر بھی رابطے میں ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ جہاں لوگوں کے مکانات کو نقصان کا خطرہ ہے وہاں سے پانی جلد از جلد نکالا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ محکمہ موسمیات نے کل شام تک وقفے وقفے سے بارش کی پیش گوئی کی ہے اگر اسی طرح سے بارش ہوتی رہی تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ہماری کچی آبادیاں جہاں نالوں سے ساتھ مکانات بنے ہوئے ہیں اگر اوور فلو ہوجائیں تو گھروں کے اندر پانی چلا جاتا ہے جسکے لیے ضلعی انتظامیہ نے بندوبست کیا ہے کہ اسکول ، کالجز اور شادی ہالز میں ان مکینوں کو رہائش دی جائے اور وہاں انھیں کھانا پینا بھی فراہم کیا جارہا ہے ان سلسلے میں عام فورسز کی بھی مدد لے رہے ہیں ان تمام علائقوں پر ہماری توجہ مرکوز ہے۔ انھوں نے کہا کہ بارش کا پانی تبھی ہی نکل سکتا ہے جب تھوڑا سا درمیان میں وفقہ ہوگا جوکہ میں بتاتا چلوں کہ ایک دو گھنٹے کا وقفہ آیا تھا جس میں، میں خود نکلا ہوں تھوڑا سا جائزہ لیا ہے اور انتظامیہ نے مجھے 1:30 بجے کے ڈی اے چورنگی کی تصویر بھیج کر صورتحال سے آگاہ کیا تھا تو اس وقت کمر تک پانی موجود تھا جب 4:00 یا 4:30 بجے تک مجھے وہاں کی تصاویر دکھائی گئی تو ایک سے ڈیڑھ انچ پانی رہ گیا تھا۔ تو کہنے کا مطلب ہے کہ بارش کا پانی تب ہی نکالا جاسکتا ہے جب بارش رک جائے اور دوبارہ نہ ہونے کے امکان ہوں ۔ چینل کے توسط سے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ گھروں میں رہیں ، گھروں سے نہ نکلیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں تھوڑی دیر کے لیے باہر نکلا تھا صورتحال کا جائزہ لینے تو دیکھا کہ لوگ تو اپنے فیمیلیز اور بچوں کے ساتھ تفریح کے لیے باہر نکلے ہوئے ہیں جوکہ اچھی بات ہے موسم کو انجوائے کرنا لیکن یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ جو بارش ہوئی ہے اس سے تمام سڑکیں زیر آب ہیں۔ نیوز اینکر کے سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ میں خود کل کراچی سے باہر گیا تھا ٹھٹہ، سجاول ، ٹنڈومحمد خان، بدین ، تھرپارکر اور حیدرآباد ان تمام اضلاع کا دورہ کرکے آیا ہوں اور آج بھی میں ان سب سے رابطے میں ہوں۔ ہم نے تمام وزراء کی ہر ضلع میں ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے بالخصوص جہاں بارش زیادہ ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے ساتھ موجود ہیں، ہماری انتظامیہ ، ہمارے وزراء ، پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیدار یہ سب موجود ہیں اور لوگوں کی مدد کے لیے پیش پیش ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا شدید بارش کے پیش نظر بیان:
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید برسات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق اپنے بیان میں کہا ہے کہ کراچی میں شدید برسات کے سبب ڈزاسٹر کی صورتحال ہوگئی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ ملیر کے علاقے میں اسکول کی عمارات خالی کرائی جائیں، ملیر اور سکھن میں رہنے والے لوگ پھنس گئے ہیں ان لوگوں کا انخلاء فوری شروع کیا جائے اورمتاثرہ لوگوں کو اسکولوں میں رکھا جائے۔ پی ڈی ایم اے سکولوں میں متاثرہ لوگوں کو کھانا، پینا اور تمام ضروری اشیاء مہیا کی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ اللہ پاک رحم فرمائے، کچے مکانات میں رہنے والے لوگوں کی پریشانی ہے۔ لوگوں کی مدد کیلئے ڈی ایم سیز، ڈی سیز، پی ڈی ایم اے کو الرٹ رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرز کو
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید برسات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق اپنے بیان میں کہا ہے کہ کراچی میں شدید برسات کے سبب ڈزاسٹر کی صورتحال ہوگئی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ ملیر کے علاقے میں اسکول کی عمارات خالی کرائی جائیں، ملیر اور سکھن میں رہنے والے لوگ پھنس گئے ہیں ان لوگوں کا انخلاء فوری شروع کیا جائے اورمتاثرہ لوگوں کو اسکولوں میں رکھا جائے۔ پی ڈی ایم اے سکولوں میں متاثرہ لوگوں کو کھانا، پینا اور تمام ضروری اشیاء مہیا کی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ اللہ پاک رحم فرمائے، کچے مکانات میں رہنے والے لوگوں کی پریشانی ہے۔ لوگوں کی مدد کیلئے ڈی ایم سیز، ڈی سیز، پی ڈی ایم اے کو الرٹ رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرز کو