M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Wednesday, May 13, 2020
کرونا کی بجائے سندھ حکومت مسلسل نشانے پر کیوں؟
تصادم کی پالیسی کے مخصوص حالات میں کچھ سیاسی فوائد ہوتے ہیں لیکن اس کو حکومت چلانے کے لیے مسلسل ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
اس کڑے وقت میں جب ہم صحت کے ایک سنگین بحران کا شکار ہیں اور ہماری تمام تر توانائیاں اس وبا سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہیے، ہماری وفاقی حکومت اور حکومت سندھ عقل سے بالا بیانات کی ایک جنگ میں مصروف ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سندھ میں سینیئر پارٹی عہدیدار حکومت سندھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ کرونا (کورونا) وائرس کے مرض میں مبتلا مریضوں اور اموات کو جان بوجھ کر اور جھوٹے اعدادوشمار مہیا کر کے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے کراچی میں تمام ہسپتالوں کے دورے کیے ہیں اور انہیں کہیں بےشمار مریض نظر نہیں آئے اور نہ ہی اموات کی تفصیل معلوم ہوسکیں۔ ان الزامات میں مزید تلخی لاتے ہوئے یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر کراچی کا لاک ڈاؤن کر کے معاشی ترقی کا راستہ روک رہی ہے اور اس کا مقصد وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔
اسی گولہ باری میں گورنر سندھ کیسے پیچھے رہتے۔ اس کے باوجود کے وہ خود کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہیں، انہوں نے حکومت سندھ کا عوام کے لیے مالیاتی سہولتوں کے پیکیج کا آرڈیننس کئی دن اپنے پاس رکھنے کے بعد مسترد کر دیا جس سے سندھ حکومت عام عوام کو مالیاتی رعایتیں نہیں دے سکی۔
گو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کے الزامات کی تردید کی اور انہیں غیرذمہ دارانہ قرار دیا ہے لیکن یقیناً صوبائی قیادت نے اپنی پارٹی کے فیصلہ سازوں کی اجازت سے ہی ایسی منفی مہم کا آغاز کیا ہوگا۔ کیا یہ مناسب وقت تھا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں خصوصی طور پر وفاقی حکومت اپنے اختلافات کو اس طرح قومی بحران کے دوران عام عوام کے سامنے زیر بحث لائیں؟ اسی طرح کے غیرذمہ دارانہ اور غیرجمہوری رویے عام عوام کو جمہوری اداروں اور سیاستدانوں سے مایوس کرتے ہیں اور غیرجمہوری قوتوں کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں۔
یقیناً پی پی پی کی سندھ میں پچھلے 10 سالوں کی کارکردگی کچھ زیادہ قابل فخر نہیں رہی ہے لیکن پی پی پی کی حکومت سے پہلے 10 سال میں جب جنرل مشرف اور ایم کیو ایم سندھ کے بلا شرکت غیر حکمران تھے تو وہاں پر کون سی شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ کیا اس دور میں بہت اعلیٰ معیاری ہسپتال قائم کیے گئے اور ہر شخص چاہے وہ کراچی میں تھا یا اندرون سندھ، صحت کی ہر سہولت انہیں حاصل تھی؟ ہرگز نہیں۔
اگر اس ایک دہائی میں صحت کے شعبے یا دیگر سماجی اداروں پر توجہ اور سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو پی پی پی کی حکومت کی اس شعبے میں کارکردگی پر ایک جائز تنقید کی جا سکتی تھی۔ اگر ہم پچھلے دس سالوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں کسی بھی سیاسی حکومت کی طرح پی پی پی کو بھی سندھ میں مسلسل سیاسی مشکلات کا نشانہ بنایا گیا۔ کراچی کو مسلسل بدامنی کا شکار رکھا گیا اور سندھ حکومت اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑتی رہی۔
وسائل کا سماجی شعبوں میں استعمال کی بجائے اربوں روپے سکیورٹی کی مد میں رینجرز اور دیگر ایجنسیوں پر خرچ کیے گئے۔ کراچی میں کئی طاقت کے سرچشمے تھے جو اپنے طریقے سے اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ ان حالات میں کسی بھی صوبائی حکومت کا کامیابی سے کام کرنا یا عام عوام کی ضروریات پر توجہ دینا اگر ناممکن نہیں تو کافی مشکل ضرور تھا۔ ان مشکل حالات کے باوجود پی پی پی سندھ میں تیسری دفعہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخالفین کی ہرزاسرائی کے باوجود اندرون سندھ کے عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن رہے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ سندھ حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس قومی بحران میں ان کے ساتھ مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرے۔ وفاقی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب خیبر پختونخوا میں وہ پہلی دفعہ انتخابات جیتے تھے تو اس وقت کی وفاقی حکومت نے انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے دیا جسے وہ 2018 کے انتخابات میں اپنی کامیابی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی اس بحران کے دوران پی پی پی کے بارے میں جارحانہ اور تصادم پر مبنی پالیسی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ چونکہ کرونا سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے سب سے پہلے فیصلہ کن اقدامات اٹھائے تو پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ ان کے اقدامات کی کامیابی سے پی پی پی اور حکومت مخالف جماعتوں کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوگا جو پی ٹی آئی کی وفاقی سطح پر کمزور اور پنجاب کی حد تک نااہل حکومت، جو اب تک تقریباً ایک درجن چیف سیکریٹریز اور آئی جی پولیس تبدیل کر چکی ہے، کے لیے ایک سنگین سیاسی خطرہ بن سکتا ہے۔
تصادم کی پالیسی کے مخصوص حالات میں کچھ سیاسی فوائد ہوتے ہیں لیکن اس کو حکومت چلانے کے لیے مسلسل ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر معاشی حالات بہتر ہوں تو کچھ عرصہ اس پالیسی کو کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے مگر خراب معیشت میں عوام اس قسم کی پالیسیوں سے جلد اکتا جاتے ہیں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی بھی تھکاوٹ یا برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔
اس لیے پی ٹی آئی کو تصادم کو ایک نئے درجہ پر لے جانے سے پہلے ان سیاسی تبدیلیوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی تصادم کی پالیسی ان کی وفاقی اور پنجاب حکومت کو بھی سنجیدہ خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سیاسی اتحادی چوہدریوں کا نیب کے خلاف عدالت میں رجوع کرنا اس کم ہوتی ہوئی برداشت کی طرف اشارہ ہے۔
پی ٹی آئی اب 2018-2013 کی اپوزیشن جماعت نہیں رہی اور اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا بوجھ کسی اور حکومت پر نہیں ڈال سکتی۔ اس لیے اسے سنجیدگی سے کرونا سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی 2013 سے جاری تصادم کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر کرونا سے جنگ میں کامیابی ہوتی ہے اور اس جنگ میں ساری صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کی قیادت میں ایک ساتھ حصہ لیتی ہیں تو یہ ایک بڑی قومی فتح ہوگی اور وفاقی حکومت بجا طور پر اس فتح کا سہرا اپنے سر باندھ سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے ماضی اور حالیہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ افسوس سے مگر آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تباہ کن تصادم کی پالیسی جاری رکھے گی اور ہم اس سے کرونا یا کسی بھی سیاسی یا معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی پر مبنی پالیسی بنانے کی امید نہ رکھیں۔
Turn the budget into corona budget, Chairman PPP Bilawal Bhutto Zardari
Chairman PPP said that the government did not announce any relief for the medical workers who are fighting on the front line. Pakistan should also use some percent of GDP for relief like all other countries in the world. We should use maximum for our front line soldiers. We should protect our medical workers. Instead Pakistan became the first state that decided that people’s health and life is not its priority.
Bilawal Bhutto Zardari suggested the government to turn its budget into Covid-19 budget. We have to focus on agriculture sector because food security is an issue now for the entire world. This government had said after Covid-19 that it will announce an agriculture package but still no sign of it. After 25 years locust is threatening us and plant protection is federal subject but the government is not ready to deal with it. Sindh chief minister is in contact with federal government for nearly a year but nothing is done yet. Balochistan government and its people are waiting for help against locust. President Zardari talked about it in the parliament last year. We held several press conference on the issue and just yesterday I addressed a press conference on locust threat and today Raja Pervaiz Ashraf spoke about it in the national assembly but government has not responded yet. Even United Nations has issued a warning about locust. The government has to provide relief to the agriculture sector to assure food security.
Chairman PPP said that the government cannot absolve itself from its responsibilities just by giving money through BISP. It has to provide relief to our daily wage workers, small traders, white collar employees, small shopkeepers etc. IMF, ADB, World Bank, G-20 countries gave relief to the government and the fall in petroleum prices has given the government fiscal space to give relief to the people of Pakistan. It is unfortunate that Sindh government corona ordinance is not signed yet through which we want to provide relief to the people. This ordinance should be implemented in other provinces as well.
https://www.ppp.org.pk/2020/05/13/turn-the-budget-into-corona-budget-chairman-ppp-bilawal-bhutto-zardari/