اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس وباء کا مقابلہ نہ کیا تو ہمارا صحت عامہ کا نظام اس وائرس کے نیچے دب جائیگا - بلاول بھٹو


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے وزیراعظم کو کرونا وائرس کے متعلق درست صورتحال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا، اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس وباء کا مقابلہ نہ کیا تو ہمارا صحت عامہ کا نظام اس وائرس کے نیچے ڈوب جائیگا اور ہم حالات کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ موجودہ حالات میں یہ پیغام ریاست کا نہیں ہو سکتا کہ اگر آپ امیر ہو تو اپنی صحت کا خیال رکھ سکتے ہو، لیکن اگر آپ کا تعلق غریب طبقے سے ہے، تو بیمار ہوکر مر بھی جاوَ تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ویڈیو لنک پر منعقدہ آل پارٹیز پارلیمانی سربرہان کے اجلاس سے وزیراعظم کے نامناسب رویئے کے خلاف احتجاجاً واک آوَٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول ہاوَس کراچی سے بذریعہ وڈیو لنک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اختلافات کے باوجود حالات کے ہیش نظر حکومت کی جناب سے منعقدہ پارلیمانی لیڈرز کی کانفرنس کی دعوت قبول کی، لیکن وزیراعظم کی جانب سے اپنا موقف پیش کرنے کے بعد دیگر جماعتوں کی بات سننا ہی گوارا نہ کرنا اور اٹھ کر چلے جانا ہم پاکستانیوں کی اخلاقی رویات اور کلچر کے منافی عمل ہے۔ عمران خان کا یہ رویہ غیرسنجیدہ اور بدتہذیبی کے ذمرے میں آتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کے اس رویئے کے خلاف میاں شہباز شریف کی جانب سے احتجاجاً میٹنگ سے اٹھ کر چلے جانے کے بعد میں بھی احتجاجاً اٹھ کر آگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اس عمل سے ایک بار یہ پیغام دیا ہے کہ قوم کے اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بلکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ 
ہم اپیل کرتے ہیں کہ وزیراعظم اپنی ائپروچ پر نظرثانی کرے اور وہ کسی کو فیور نہیں دے رہے بلکہ بطور وزیراعظم پاکستان یہ ان کی ذمیداری ہے۔ انہیں تمام سیاسی قیادت سے بھی بات کرنی چاہیئے۔ ہم اب بھی مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہیں۔ پانہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا یہ موقف عالمی اداروں کی تحقیق اور وارننگس سے متضاد ہیں کہ پاکستان میں مقامی سطح پر کرونا وائرس کا پھیلاوَ بہت کم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان مقامی سطح پر متاثر ہیں، سندھ میں 148 کیسز جن میں سے 94 مقامی ہیں جو خاص کر کراچی میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ 64 فیصد کیسز مقامی ہیں۔ پی پی پی چیئرمین نے مختلف ممالک میں طبی سہولیات کا پاکستان سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ برطانیا میں فی ایک ہزار شہریوں کے لیئے 2.8 اسپتال کے بیڈ، اسپین میں 3، اٹلی میں 3.4 اور چین میں 2 ہاسپیٹل بیڈ دستیاب ہیں، جبکہ پاکستان فی ایک ہزار شہریوں کو فقط 0.6 ہاسپیٹل بیڈ میسر ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں اس مہلک وباء کی روکتھام کے لیئے انتھائی تیزی اور موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ قرطینہ سینٹرز اور لاک ڈاوَن کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ وفاق پورا ملک میں وہ اقدامات کرے جو اس وائرس کو کم کرسکتا ہے، متاثرین کا سراغ لگاسکتے ہیں، اس دوران ہم اپنے ہسپتالوں کی تعداد بڑھائیں، تشخیصی کٹس کی 
تعداد بڑھائیں، ایک دن میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد بڑھائیں، ڈاکٹر اور نرسز کی تربیت کریں۔
 ہمیں اس بیماری کے خلاف تیاری کریں تاکہ ہم مقابلہ کرسکیں۔ اس وقت ریاست کا فقط دو معاملات پر فوکس ہونا چاہیئے۔ ہمیں ہمیں ملک میں ٹیسٹنگ اور طبی سہولیات صلاحیت میں اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ امدادی کاموں اور معیشت کا سنبھالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم سب مل جل کر اقدامات نہیں اٹھائیں گے، لاک ڈاوَن موثر نہیں ہوگا۔ پنجاب کا لاک ڈاؤن فائدہ مند نہیں ہوسکے گا اگر اسلام آباد میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا۔ پی پی پی چیئرمین نے اپنی جانب سے حکومت کو تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ریلیف پیکیج کے اعلان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کے ردعمل سے واضح ہے یہ پیکیج ناکافی ہے۔ ہمیں غریبوں کی صحت اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی حالات کو بھی سنبھالنا ہوگا۔ ہر غریب خاندان کو کم از کم 15000 روپے ماہانہ دیئے جائیں۔ شہریوں کی موثر آئسولیشن کے لیئے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ پانچ ہزار تک کے بجلی کے بلز اور 2000 روپے تک کے گئس کے بلز معاف کرنا ہونگے۔ انٹریسٹ ریٹ کو سنگل ڈجٹ پر لانا پڑے گا۔ حکومت سندھ نے سب سے پہلے موجودہ حالات کے پیش نظر ریلیف فنڈ قائم کیا ہے اور اس کے بعد دیگر صوبوں نے بھی اس طرح کے قدم اٹھائے ہیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ موجودہ حالات میں ریاست کا پیغام یہ ہونا چاہیئے کہ شہریوں کی صحت اور ان کی زندگیوں کی 
بلا امتیاز حفاظت اور معاشی معاملات کو سنبھالیں گے

https://www.ppp.org.pk/2020/03/25/agar-hum-ny-is-waba-ka-sanjdagi-sy-mutable-na-kiya-tu-humara-health-system-is-ky-agay-soon-jy-ga/

بلوچستان میں کورونا کے 119 کیسز ہوگئے - #COVID2019

چیف سیکرٹری بلوچستا ن فضیل اصغر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کے 119 کیسز ہوگئے ہیں۔
کوئٹہ میں چیف سیکریٹری بلوچستان فضیل اصغر نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کوروناوائرس کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے، جس کی وجہ سے کوئٹہ کو مکمل لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں کوئٹہ سے کوئی باہر جاسکے گا اور نہ ہی کوئی اندر آسکے گا۔
فضیل اصغر نے کہا کہ مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں لوگوں کا کورونا کا فوری چیک اپ کیا جائے گا اور ان علاقوں کو پوری طرح سے حصار میں لیا جائے گا۔
چیف سیکریٹری بلوچستان نے کہا کہ کچھ عرصہ میں بیرون ملک سے طیارے سے دو ہزار 64 افراد کوئٹہ آئے ہیں، بیرون ملک سے آنے والے تمام مسافروں کا طبی چیک کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزراء نے کوروناوائرس کے امدادی فنڈ کےلئے ایک ماہ کی تنخواہ دینے کافیصلہ کیا ہے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ ڈیوٹی پر نہ آنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے جبکہ بلوچستان میں آٹے کی کمی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اپنے گھروں میں مقیم ہوکر رہ جائیں، تاہم ابھی تک کوروناوائرس کی بیماری کنٹرول میں ہے جبکہ اگر کورونا کی وبا پھیلی تو اسے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
چیف سیکریٹری بلوچستان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے بعد کوئٹہ کا دیگر صوبوں سے رابطہ نہیں رہے گا، اس مشکل صورتحال میں مخیرحضرات مالی مدد اور تعاون کے لئے آگے آئیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ صورتحال کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں سے سختی سے نمٹا جائےگا۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ منافع خوری پر سخت کارروائی کی جائے گی، جبکہ لوگ اگر گھروں میں رہیں گے تو کوروناوائرس سے بچت ہوگی اور کوئٹہ میں لوگوں کی آمدورفت روکنے کے لئے آٹھ مقامات پر ناکے لگائے جائیں گے۔