ماہ جبین قزلباش ایک دور تھا جو آج تمام ہوا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ماہ جبین نے فن کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ جوان تھیں، خوبصورت تھیں، ساتھ ہی ساتھ مترنم آواز کی بھی مالک تھیں۔عرش والا تو مہربان تھا ہی لیکن فرش والے بھی ان کے دیوانے ہو گئے۔
نوجوان سر شام ہی ان کے گیت سننے کے لیے ریڈیو کانوں سے لگا لیتے تھے۔ یا پھر اس زمانے میں جن کےگھر ٹی وی ہوتا تھا، گھر کے لوگوں سمیت گلی محلے کی خواتین بھی ماہ جبین کی ایک نظر دیکھنے کے لیے سکرین کے سامنے سے ہٹتے نہیں تھے۔
وہ جہاں بھی جاتیں، ان کے حسن و فن کے دلدادہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ یہی وہ دور تھاجب ’’ماہ جبین‘ نام کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بیٹیوں کی پیدائش پر ان کے نام ماہ جبین رکھوائے جانے لگے۔
ان کی پہلا پشتو گیت ’سپینے سپوگمئی وایہ اشنا بہ چرتہ وی نہ‘ کو اس قدر مقبولیت حاصل ہو گئی تھی کہ ماہ جبین سے ان کے انٹرویوز میں اکثر اسی گانے کی فرمائش ہوتی تھی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ گانا پیار کرنے والے تمام لوگوں کا آج بھی پسندیدہ گیت تصور کیا جاتا ہے۔
کچھ مہینے قبل جب ان کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے مجھے ایک رکشے والے سے بات کرنی پڑی تو انہوں نے قدرے شرارت سے کہا کہ میڈم کےگھر کا پتہ کون نہیں جانتا، اتنے سارے دیوانے تو ہیں ان کے۔ ان کی شرارت بھانپ کر میں نے جواباً پشتو کا ایک ٹپہ بول دیا،
’پہ لیلیٰ ہر سڑے مئین دے، بخت د ھغو دے چے لیلیٰ پرے شی مئینہ
مطلب یہ کہ لیلیٰ کے تو بہت سارے دیوانے ہوتے ہیں۔ قسمت والا وہی ہے جس کو لیلیٰ بھی پسند کرتی ہو۔
موسیقی کو بہت پسند کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنی سکول کی استانی کے مشورہ پر ریڈیو کا رخ کیا تھا۔ ان کے الفاظ میں،
’میری استانی نے ایک دفعہ مجھے گاتے ہوئے دیکھ کر کہا، لڑکی! تم خوبصورت بھی ہو اور گاتی بھی اچھا ہو۔ ریڈیو پاکستان میں بچوں کے گیت اور نغمے کے لیے آڈیشن کیوں نہیں دیتیں؟‘
انٹرویو میں مزید لکھا گیا تھا کہ اس کے بعد ماہ جبین گھروالوں کی اجازت پر ریڈیو پاکستان گئیں جہاں انہیں سلیکٹ کر لیا گیا۔ تاہم اسی دوران ایک اخبار میں مشہور لوک کہانی پر مبنی فلم’شیر عالم اور میمونئی ‘ کے لیے ایک معصوم شکل ہیروئن کی ضرورت تھی۔ میڈم قزلباش کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ سے بات کی اور انہوں نے اجازت دے دی۔ مجھے اس آڈیشن میں پسند کر لیا گیا۔
بعد میں فلم کی ریکارڈنگ سوات کے علاقے میادم میں ہو رہی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر کامران اور اور ہیرو ایمل خان تھے۔ یہ سخت سردی کا موسم تھا۔ میری والدہ اور بھائی بھی میرے ساتھ تھے۔ رات کو کمرے میں آگ لگ گئی۔ ہمارے کمرے کے ساتھ ہی ایمل خان کا کمرہ تھا۔ انہوں نے جیسے ہی چیخوں کی آواز سنی، وہ فوراً مدد کے لیے آپہنچے۔ ہمیں کمرے سے باہر کیا۔ اور مجھے کمبل میں لپیٹ لیا۔
اسی رات ایمل خان کو میں اتنی پسند آئی کہ میری والدہ سے باقاعدہ طور پر میرے رشتے کی بات کی اور بعد میں ہم دونوں کی شادی ہو گئی۔‘
ماہ جبین کے شوہر ایمل خان کا اصل نام حکیم اللہ اورکزے تھا جن کا وہ اکثر نہایت پیار اور احترام سے ذکر کیا کرتی تھی٘ں۔ ایمل خان کی وفات کے بعد ان کی دوسری شادی کی خبریں بھی گردش میں رہیں، تاہم مرحومہ نے کھل کر کبھی اس کی تصدیق نہیں کی۔
خیبر پختونخوا کی خواتین گلوکاراؤں میں میڈم ماہ جبین ایک ایسی شخصیت تھیں جنھوں نے اپنی آخری عمر تک نہ صرف اپنے فن سے رشتہ قائم رکھا بلکہ اپنی شخصیت اور بناؤ سنگھار کا بھی ہمیشہ خیال رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوان گلوکاروں میں انسپائریشن سمجھی جاتی رہیں۔
مشہور ہے کہ فنکاروں کو ان کے عروج پر جو توجہ ملتی ہے وہ زوال کے وقت نہیں ملتی۔تاہم میڈم ماہ جبین کو ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جن دنوں وہ بستر مرگ پر تھیں، ہسپتال میں گلوکاروں اور دیگر شخصیات کا تانتا بندھا رہا۔
بلکہ جیسے ہی ان کی بیماری کی خبر سامنے آئی، خیبر پختونخوا کی ڈائریکٹر کلچر ڈیپارٹمنٹ شمع ادریس خان اور سکرٹری کلچر نے نہ صرف ان کی عیادت کی بلکہ ان کے علاج کا بھی بندوبست کیا۔
ماہ جبین کو اپنے فن کی خدمات میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، اور اس کے علاوہ پشتون کے نجی چینل کی جانب سے ’بلبل خیبر‘ کا خطاب ملنے کے علاوہ کئی دیگر ایوارڈز ملے ہیں۔
میڈم ماہ جبین کے حوالے سے چند تاثرات:
خیبر پختونخوا کے مشہور و معروف گلوکار ہمایون خان جو نوجوان نسل میں اچھی خاصی مقبولیت رکھتے ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود میڈم ماہ جبین کے پرستار رہے ہیں۔ اور ہمیشہ ان کو ایک انسپائریشن سمجھتے رہے۔
’میڈم ماہ جبین اور ان کے وقتوں کے دیگر گلوکاروں نے اس دور میں کام کیا جب پاکستان ٹیلی وژن یا ریڈیو پاکستان واحد تفریح کے چینل ہوا کرتے تھے۔ عام عوام سے لے کر حکمران پاکستان تک سب ان کو جانتے تھے۔پرانے وقتوں میں مونو ریکارڈنگ ہوا کرتی تھی۔ ان گلوکاروں نے کافی محنت کی۔اور یہ اپنے فن کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ میڈم ماہ جبین کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کی گلوکاراؤں سے ایک منفرد سٹائل اور شخصیت رکھتی رہی ہیں۔میں نے ان کے ساتھ کچھ پروجیکٹس میں اکٹھے کام کیا۔وہ۔ اور ہم کئی دفعہ ایک ساتھ سکرین پر اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔وہ اکثر میرے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کرتی تھیں اور میں اس کو ایک اعزاز سے کم نہیں سمجھتا۔‘
ماہ جبین نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سینکڑوں گانے گائے ہیں۔ انہوں نے پشتو کے علاوہ اردو، پنجابی، سرائیکی، فارسی اور دری میں بھی گانے گائے۔انہیں ان کے فن کی وجہ سے صدارتی ایوارڈ اور دوسرے کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان میں سے ایک بلبل خیبر ایوارڈ بھی تھا جو انہیں پشتو کے پہلے نجی چینل اے وی ٹی خیبر نے دیا۔
اسی چینل سے وابستہ ایک شخصیت اور ٹی وی میزبان ذکی الرحمٰن میڈم ماہ جبین کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ میڈ٘م سے ان کی پہلی ملاقات 1977 میں ہوئی تھی جب وہ کوہاٹ پرفارمنس کے لیے آئی تھیں۔ اور ان کے ساتھ ناہید اختر اور غلام علی بھی تھے۔
’میں چھوٹا بچہ تھا اور میرے والدین نے مجھے ان سے ملوایا۔ میڈم نے مجھے چومااور پیار دیا۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی پیار کرنے والی شخصیت تھیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کرتی تھیں۔ پھر اس کے بعد ٹی وی پر تو ان کو دیکھتے رہتے تھے۔ لیکن ہماری دوسری تفصیلی ملاقات 2004 میں خیبر ٹی وی میں ایک شو پر ہوئی۔ پھر میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں وہی بچہ ہوں۔ وہ ہنس مکھ اور دوست مزاج خاتون تھیں۔ ہم نے کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں دیکھے۔‘
ذکی الرحمٰن مزید بتاتے ہیں، ’میڈم ماہ جبین نے خیبر ٹی وی کے ساتھ بے تحاشا پروگرام گلوکارہ کے طور پر کیے۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے ملنے اور بات کرنے کا موقع بھی بہت ملا۔ وہ باصلاحیت خاتون تو تھیں ہی۔لیکن کبھی انہوں نے بہ طور میزبان کوئی پروگرام نہیں کیا تھا۔ جب پہلی دفعہ ہم نے انہیں یہ پیشکش کی تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ وہ یہ کبھی نہیں کر سکیں گی۔ لیکن ہمارے اصرار پر انہوں نے اپنی زندگی کا پہلا پروگرام بہ طور میزبان کیا۔ اس پروگرام کا نام ’د سرونو سفر‘ (سروں کا سفر) تھا جو بہت مقبول ہوا کیونکہ یہ ناظرین کے لیے بھی بڑی اچھنبے کی بات تھی‘
ماہ جبین قزلباش کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے - بیٹی ہما اپنی والدہ سے شکل میں بہت ملتی جلتی ہیں۔ لیکن اپنی والدہ کے برعکس وہ اداکاری اور گلوکاری سے دور رہیں۔
ماہ جبین کو 2015 سے دل کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ جو پچھلے مہینے شدت اختیار کر گیا۔ نتیجتاً انہیں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ ڈیڑھ مہینے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلہ رہیں۔ اور بالآخر آج اس دارفانی سے رخصت ہوئیں۔