M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Friday, February 7, 2020
AP FACT CHECK: Ripping up copy of Trump's speech not illegal
By DEB RIECHMANNThere's no disputing that House Speaker Nancy Pelosi caused quite a stir when she tore up her copy of President Donald Trump's State of the Union speech at the end of his address. Pelosi said she decided to shred what she saw as a “compilation of falsehoods” to make a statement ”that clearly indicates to the American people that this is not the truth." Trump and his Republican allies, for their part, saw Pelosi's action as an act of disrespect — and an illegal one at that. Legal experts disagreed, saying the speech was Pelosi's to do with what she wanted.
TRUMP: “I thought it was a terrible thing when she ripped up the speech. First of all, it's an official document. You're not allowed. It's illegal what she did. She broke the law.”
THE FACTS:
Legal experts say no laws were broken. They said it was not an original government document, but Pelosi's copy of the speech.
Steven Aftergood, a records expert at the private Federation of American Scientists, said: “Legally, this is a non-issue. Pelosi was expressing contempt for the president’s speech, and her views are constitutionally protected.” He said her torn-up pieces of the speech might themselves be considered a new record of historical value.
Laurence Tribe, a constitutional law professor at Harvard University, said Pelosi did not violate 18 U.S. Code Section 2071, the federal law defining the deliberate destruction of an official record that has been filed with a court or other government agency — a felony punishable by a prison term and by forfeiture of office.
Heidi Kitrosser, a law professor at the University of Minnesota, said: “This is not an archival document. ... This is one of many, many, many copies of President Trump's speech and Nancy Pelosi is free to do with it whatever she will.” Kitrosser added that any disagreement with Trump's speech is protected by the First Amendment "and in Pelosi's case, under the speech and debate clause of the Constitution."
احسان اللہ احسان کس کے ’احسان‘ سے فرار ہوا؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار سے ملک کئی کے حلقوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس فرار پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔
احسان اللہ احسان کے فرار پر اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنانے والوں میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فرار نے ایک نہیں بلکہ کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، ''ہمیں اس فرار پر بہت تشویش ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ اتنے ہائی سکیورٹی زون سے کیسے فرار ہوا ؟ ساری جماعتوں کے مطالبے کے باوجود احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلا کر اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟ اس مسئلے پر خاموشی کیوں ہے؟ کیا خطے میں کوئی نیا گیم ہونے جارہا ہے؟ ہماری پارٹی اس مسئلے پر اجلاس بلائے گی اور فیصلہ کرے گی کہ اسے پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے یا نہیں؟
واضح رہے کہ اس خبر کو سب سے پہلے ایک بھارتی اخبار نے بریک کیا تھا لیکن پاکستان میں اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ اب جب کہ احسان اللہ احسان کی آڈیو سامنے آ گئی ہے، تو اس پر سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہورہے ہیں۔ تاہم پاکستان کا آزاد میڈیا، خصوصاً چینلز، اس پر تبصرے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ لوگوں کو آئی ایس پی آر کی خاموشی پر بھی تعجب ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا،''مجھے بھی میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلا ہے، لہذا اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر یہ خبر سچی ہے تو بھی حکومت کی طرف سے بیان آنا چاہیے اور اگر غلط ہے تو اس کی تردید آنا چاہیے تاکہ ملک میں جو چہ مگوئیاں ہورہی ہیں، وہ بند ہو سکیں۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما و ایم این اے بشری گوہر کے خیال میں اس کا فرار نا اہلی کی بد ترین مثال ہے، ''یہ فرار سکیورٹی اداروں کی ملی بھگت اور اس اسٹیٹ پالیسی کا عکاس ہے، جس کے تحت ہم آج بھی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے فلسفے کی پیروی کر رہے ہیں اور طالبان دہشت گردوں کو دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ‘‘
بشری گوہر نے بھی اس فرار پر کئی سوالات بھی اٹھائے،’’اتنے سارے معصوم انسانوں کے قاتل پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اسے ریاست کے مہمان خانے میں کیوں رکھا گیا تھا؟ کس نے اس کی فرار میں مدد کی ہے؟ اس کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا گیا جیسا کہ وہ اسٹریٹیجک اثاثہ ہو؟ آئی ایس پی آر، کٹھ پتلی حکومت، میڈیا اور سیاست دان اس پرخاموش کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اندرونی مدد کے بغیر وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔‘‘
پاکستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں، جہاں طالبان قیدی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ کئی ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے بعد بھی حکومت نے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے بنوں جیل کو توڑا گیا، کراچی جیل سے بھی قیدی بھاگے اور اب تو ایک نامی گرامی دہشت گرد، جس کے ہاتھ پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون ہے، وہ جی ایچ کیو کی حراست سے بھاگ گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ خطے اور پختون علاقوں میں کوئی بڑا گیم ہونے والا ہے، جس میں ایک بار پھر تباہی ہمارے علاقوں کی ہو گی۔‘‘
احسان اللہ احسان ہے کون؟
احسان اللہ احسان کا اصل نام لیاقت علی ہے اور ان کا تعلق پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے مہمند سے ہے، جو پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک تھی۔ اب یہ علاقہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہو چکا ہے اور اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ احسان اللہ احسان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور وہ کافی عرصے تک اس کے ترجمان بھی رہا۔ اس نے ترجمان کی حیثیت سے کئی طالبان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بعد ازاں ٹی ٹی پی میں تقسیم کے بعد وہ جماعت احرار کے ترجمان بن گئے اور اس دہشت گرد تنظیم کے بھی کئی اہم حملوں کی ذمہ داری احسان اللہ احسان نے قبول کی۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں صحافت سے بھی وابستہ رہا ہے اور اسے شاعری کا بھی شوق رہا۔
ٹی ٹی پی، پنجابی طالبان اور سپاہ صحابہ
احسان اللہ احسان کو پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ معاویہ کے بارے میں خیال کیا جاتا کہ وہ ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور کالعدم جہادی تنظیم جیش محمد کا حصہ رہا ہے۔ سپاہ صحابہ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ کبھی بھی ان کی تنظیم کا حصہ نہیں رہا۔ عصمت اللہ معاویہ نے دوہزار چودہ میں ٹی ٹی پی چھوڑ دی تھی اور سکیورٹی اداروں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اب ترویج دین کے لیے کام کرے گا اور افغانستان میں نیٹو کی فوج کے خلاف جہاد کرے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ معاویہ نے احسان اللہ احسان اور سکیورٹی اداروں کے درمیان رابطہ کرایا، جس کے بعد احسان اللہ احسان نے اپریل دوہزار سترہ میں ہتھیار ڈال دیے اور ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہی تھی۔
احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو: حکومت خاموش کیوں؟
سوشل میڈیا پر ایک آڈیو گذشتہ روز سے گردش میں ہے جس میں ایک شخص خود کو احسان اللہ احسان بتا کر کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی ’حراست‘ سے فرار ہو گیا ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا میں جمعرات سے ایک آڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک شخص دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان ہے اور وہ پاکستانی اداروں کی ’حراست‘ سے ’فرار‘ ہو گئے ہیں، تاہم اس آڈیو کی ابھی تک آزاد ذرائع یا حکومت سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
Breaking: Former Pakistani Taliban spokesman Ehsanullah Ehsan confirms his escape from Pakistani jail. pic.twitter.com/B8Y36yIN1W
— Ihsan Tipu Mehsud (@IhsanTipu) February 6, 2020
اپنے آپ کو احسان اللہ احسان کہنے والے ایک شخص اپنے آڈیو میں کہتا ہے: ’میں نے پانچ فروری 2017 کو خود کو ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا اور تقریباً تین برس تک اپنی طرف سے اس معاہدے کی بھرپور پاسداری کی لیکن پاکستان کے اداروں نے معاہدے کے خلاف مجھے اپنے بچوں سمیت قید کیا تھا اور 11 جنوری 2020 کو ہم پاکستانی اداروں کے قید سے فرار ہو گئے ہیں۔‘
آڈیو میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے نکات، پاکستان میں انہیں کہاں رکھا گیا تھا اور اس معاہدے میں کون موجود تھے اس پر وہ بہت جلد بات کریں گے۔
تاہم اس اتنے بڑے الزام پر حکومت یا سکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان تقریبا 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سامنے نہیں آیا ہے۔
کیا آڈیو واقعی احسان اللہ احسان کی ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو ایسے صحافیوں سے بات کی جن کی ماضی میں احسان اللہ احسان فون پر بات ہوتی رہی ہے تاکہ جان سکیں کہ آڈیو واقعی احسان اللہ احسان کی ہے۔
پشاور کے ایک صحافی رسول داوڑ جو ماضی میں دہشت گردی کے واقعات کو کور کرتے رہے اور احسان اللہ احسان کے ساتھ کئی مواقع ہر فون پر بات بھی کی ہے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آڈیو میں آواز احسان اللہ احسان کی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے تصدیق بھی کی ہے کہ یہ آڈیو ان کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یوٹیوب پر پڑے احسان اللہ احسان کے مختلف ٹی وی انٹرویوز یا دیگر ویڈیوز کے ساتھ اگر ان کا موازنہ بھی کیا جائے تو آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ آواز واقعی احسان اللہ احسان کی ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی نے کئی سالوں سے دہشت گردی کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے درجنوں مرتبہ احسان اللہ احسان کے ساتھ ماضی میں فون پر بات کی ہے اور وہ اس سمجھتے ہیں کہ آڈیو میں یہ آواز احسان اللہ احسان ہی کی ہے لیکن اس حوالے سے پاکستانی ادارے مزید تبصرہ کر کے اس ‘معاملے کی وضاحت کر سکیں گے۔
رفعت اللہ اورکزئی نے کئی سالوں سے دہشت گردی کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے درجنوں مرتبہ احسان اللہ احسان کے ساتھ ماضی میں فون پر بات کی ہے اور وہ اس سمجھتے ہیں کہ آڈیو میں یہ آواز احسان اللہ احسان ہی کی ہے لیکن اس حوالے سے پاکستانی ادارے مزید تبصرہ کر کے اس ‘معاملے کی وضاحت کر سکیں گے۔
جس اکاؤنٹ سے خود کو احسان اللہ احسان کہنے والے شخص نے آڈیو ریلیز کی ہے، جب اس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے ’فرار‘ کے کسی قسم کے مزید شواہد دینے سے انکار کر دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی ویڈیو آپ ریلیز کر سکتے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہو سکے تو انہوں نے جواب میں بتایا کہ وقت آنے پر وہ سب کچھ سامنے لائیں گے اور ابھی تک صرف آڈیو پر ہی گزارا کیا جائے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے پر پاک فوج کا موقف لینے کے لیے آئی ایس پی آر کو ای میل بھیج دی ہے لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کے طرف سے اگر کوئی موقف سامنے آیا تو اسے بھی پیش کر دیا جائے گا۔
اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے پاک فوج کے دو دیگر سینیئر اہلکاروں کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش لیکن انہوں نے اس معاملے پر کسی قسم کی تبصرہ کرنے سے گریز کیا، اور نہ ہی اس آڈیو کی تصدیق یا تردید کی۔
طالبان ذرائع سے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک نے یہ بتایا کہ چونکہ احسان اللہ احسان اب تنظیم کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں تنظیم کے پاس معلومات نہیں ہیں اور نہ وہ فرار ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
احسان اللہ احسان کون ہیں؟
احسان اللہ احسان کا اصلی نام لیاقت علی ہے اور وہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان تھے۔ کئی برس تک ٹی ٹی پی سے وابستہ رہنے کے بعد ان کے اس تنظیم کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ جماعت الاحرار کے نام سے الگ ہونے والے دھڑے کے ترجمان بن گئے۔
ماضی میں احسان اللہ احسان پاکستان میں مختلف دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکیں ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملا یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی۔
ان کے جانب سے ماضی میں آرمی پبلک سکول حملے کے حملے کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے ایک خبر کے مطابق اس وقت جب تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے جب آرمی پبلک سکول حملے کی ذمہ داری قبول کی تو جماعت الاحرار کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے کی مذمت کی تھی۔ اس مبینے احسان اللہ احسان اپنی ایک ٹوئنٹر اکاونٹ بھی بنا لیا ہے جس سے وہ تواتر کے ساتھ ٹوئٹس بھی کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹوئٹر پر احسان اللہ ٹرینڈ بھی کر رہے ہیں۔
2017 میں پاک فوج کے ترجمان کے جانب سے یہ بیان سامنے آ گیا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستانی سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ایوان بالا میں یہ کہا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی ہو گی۔
اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا تھا کہ احسان اللہ احسا ن پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
Taliban Militant Flees Prison, Claiming Deal With Pakistani Security Forces
By Ihsanullah Tipu Mehsud and Maria Abi-Habib
His claims of a secret deal come at a sensitive time for the government, which is under international pressure to cut ties with terror groups.A prominent Taliban official who served as the group’s spokesman during some of its most devastating attacks, including the attempted assassination of the young activist Malala Yousafzai, has escaped from detention in Pakistan, claiming he had made a secret deal with the country’s security forces. If verified, the claim by the Taliban militant, Sajjid Mohmand, also known by his nom de guerre, Ehsanullah Ehsan, would bring renewed scrutiny to the country’s ties to the group. Pakistan’s security and intelligence forces have long been accused of harboring terrorist groups to use for their foreign and domestic policy objectives, which they have denied. “I have been in detention for three years and I honored the deal with great patience for three years,” Mr. Mohmand said in an audio recording that was released on social media on Thursday. “In the near future, I will make more revelations about the deal and people involved in it.” When reached by phone on Friday, Mr. Mohmand confirmed the authenticity of the audio recording and added that he and his family were in hiding. A spokesman for Pakistan’s military declined to comment on Friday. Ms. Yousafzai, who championed girls’ education, was shot on a bus by a Taliban militant on Oct. 9, 2012. She survived and went on to become a globally recognized activist and a Nobel laureate. When Mr. Mohmand, who had served as the spokesman for the Pakistani Taliban, surrendered in Pakistan in 2017, security forces hailed his arrest as a victory in their counterterrorism operations.But Mr. Mohmand told reporters this week that his surrender had been the result of a murky deal he struck with Pakistani forces, and he promised to reveal more information soon. An associate of Mr. Mohmand’s and a Pakistani intelligence official supported the claim, saying that the militant had agreed to the surrender in exchange for a large payout by the country’s security forces. Mr. Mohmand was placed under house arrest with his family in Hayatabad, an upscale suburb of Peshawar City, instead of the barren jail cell usually reserved for hardened criminals. He lived a relatively comfortable life, calling relatives and friends as he pleased, surfing the internet and even fathering a child.But the deal apparently turned sour after Mr. Mohmand waited impatiently for three years to be paid. He and his family reportedly escaped last month, with their getaway coming to light only this week.Pakistani security forces are now offering Mr. Mohmand more money to turn himself back in, but he has refused the offer, officials say.The security officials believe that Mr. Mohmand is currently hiding out on the country’s border with Afghanistan, a mountainous region that the military has struggled to patrol. The release of the militant and his claims of a secret deal with Pakistani security forces come at a sensitive time for the government, which is under international pressure to cut ties with terror groups or face financial repercussions. The high-profile escape would be a major security breach and an embarrassment for the Pakistani military and intelligence services, as they are facing questions about why they kept silent about the release for nearly a month. Mr. Mohmand was one of the most recognizable faces of the Pakistani Taliban, officially known as Tehrik-e-Taliban Pakistan, until he left the group in 2013, going on to join an even more radical breakaway faction called Jamaat-ul-Ahrar. As a spokesman, he was deft at using social media to publicize the group’s operations, constantly calling reporters to tell them about brutal operations, including the 2016 attack in the eastern city of Lahore on Easter Sunday, targeting families that had just left church. But the Pakistani Taliban have suffered serious setbacks in recent years, with security services successfully uprooting the group from the country’s tribal areas on the border with Afghanistan. Several of its senior leaders have been killed in American drone strikes in Pakistan and Afghanistan, and the group has also had internal rifts, difficulties recruiting and financial constraints that have seriously undermined its operational capabilities. While Pakistan’s military is accused of using militant groups against domestic and regional rivals, it has had little tolerance for the Pakistani Taliban because of its internal focus: attacking and challenging the state. https://www.nytimes.com/2020/02/07/world/asia/taliban-malala-yousafzai-pakistan.html
Saudi Arabia rejects Pakistan’s plea for discussion on Kashmir at OIC
"We can’t even come together as a whole on the OIC meeting on Kashmir", Dawn quoted Pak PM Imran Khan as saying.
In yet another setback to Islamabad, Saudi Arabia has once again declined Pakistan’s request for an urgent meeting of the council of Foreign Ministers on Kashmir at the Organization of Islamic Cooperation (OIC).
In December, Pakistan had trumpeted that it secured a diplomatic win by prevailing on Saudi Arabia to hold a special session on Kashmir at the OIC. However, officials in New Delhi had expressed skepticism about the news, saying that the OIC did not make any official announcement or issue any confirmation of the meeting.
On Thursday, Pakistani daily Dawn reported that Prime Minister Imran Khan’s plea for a discussion on Kashmir has been rejected by Saudi Arabia. The OIC is holding its senior officials’ meeting in Jeddah on February 9 to make arrangements for the council of foreign ministers.
Mr. Khan has been campaigning around the world against India ever since the Narendra Modi-led government revoked the special status of Jammu and Kashmir in August last year.Recently, Mr. Khan was forced by Saudi Crown Prince Mohamad Bin Salman to cancel his trip to Malaysia where he intended to slam India over Kashmir at the Islamic Summit hosted by the Mahathir Mohamad government in Malaysia.
Challenge to its leadership irks Riyadh
Riyadh took serious offence to the summit where it was not invited and perceived it as a challenge to its leadership in the Muslim world by Turkey, Malaysia and Pakistan. The Saudi Kingdom threatened to withdraw its massive aid to Pakistan, already reeling under an economic crisis.
“Islamabad’s feeling of unease with the OIC on its failure to get the CFM’s meeting appears to be growing. Prime Minister Imran Khan voiced frustration over the OIC’s silence on Kashmir while speaking at a think-tank during his visit to Malaysia,” the Dawn reported.
The newspaper quoted Mr. Khan as saying: “The reason is that we have no voice and there is a total division amongst (us). We can’t even come together as a whole on the OIC meeting on Kashmir.”
Prime Minister Narendra Modi visited Riyadh in October last year, the second time since 2016, and met the Crown Prince five times. The outcome of the meetings has been strategic partnership pact between the two countries, making India fourth country after France, the UK and China to earn such a significant status in Riyadh.
India is a major importer of oil from Saudi Arabia.
https://www.thehindu.com/news/international/saudi-arabia-rejects-pakistans-plea-for-discussion-on-kashmir-at-oic/article30758862.ece