Malala keen to work for girls’ education in Pakistan




The youngest Nobel laureate Malala Yousufzai has expressed her keen interest in improvement of girls’ education in Pakistan.
This she said at a meeting with Karamat Ali, Executive Director of Pakistan Institute of Labour Education and Research (PILER) and other Pakistanis at Birmingham, England early this month.
According to Karamat Ali, the Malala Fund is currently working on girls’ education all over the world and she was briefed about the status of girls’ education in Pakistan.
Malala is very keen to work for universalisation of education in all South Asian countries and in this regard, she has emphasized for restoration of peaceful conditions in South Asia. She appreciated the efforts of people who are working for restoration of peace between Pakistan and India.
Although resources are available with the South Asian countries, most of the local resources are spent on defence and purchase of arms.  Instead of spending on purchasing arsenal the governments in South Asia should spend on social welfare of the people, majority of them are poor and deprived.
Malala gave her book of autobiography to the participants of the meeting.

http://thefrontierpost.com/malala-keen-work-girls-education-pakistan/

صنم بھٹو سے ایک یادگار ملاقات

ڈاکٹرخالد جاوید جان
JULY 14, 2017 | 12:00 AM
صنم بھٹو سے ایک یادگار ملاقات

اس دن کئی روز کی شدید گرمی کے بعد ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور موسم خاصا خوشگوار ہو گیا تھا کیونکہ جون 2017شاید لندن کا گرم ترین مہینہ تھا۔ جب درجہ حرارت 37Cتک چلا گیا جو لندن کے باسیوں کے لئے ایک انہونی بات تھی۔ کیونکہ یہاں اکثر بلڈنگوں میں ائیر کنڈیشنر نہیں لگے ہوتے اس لئے اتنی گرمی ہمارے جیسے گرم ملکوں سے آئے ہوئے سیاحوں کے لئے بھی کافی تکلیف دہ تھی۔ ہم گرمی سے بچنے کے لئے یہاں آئے تھے لیکن یہاں تو آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے والی بات تھی۔ اس سے ایک بات تو سچ ہوتی دکھائی دی کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والے سالوں میں دنیا کے کئی ٹھنڈے ملک بھی گرم ہو جائیں گے۔ کئی روز کی شدید گرمی کے بعد ہم ابھی خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہور ہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وکٹوریہ شیفیلڈ تھیں جو یو کے کی معروف صحافی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذاتی دوست اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی کلاس فیلو ہیں۔ وہ کچھ ماہ پہلے بے نظیر لٹریری فیسٹیول میں شرکت کرنے لاہور آئی تھیں اور ہمارے گھر میں ہی ٹھہری تھیں۔ انہیں ہمارے لندن آنے کی خبر تھی۔ انہوں نے فون پر ہمیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی چھوٹی صاحبزادی صنم بھٹو بھی مجھ سے ملنا چاہتی ہیں اور وہ بھی وہاں موجود ہوں گی تو ہماری خوشی دوبالا ہو گئی۔ صنم بھٹو نہ صرف اس عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ہیں جو قائد ہماری نسل کا آئیڈیل سیاستدان اور سیاسی مفکّر تھا بلکہ بھٹو خاندان کی واحد زندہ بچ جانے والی فرد بھی۔ بلاشبہ ہماری قومی تاریخ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے جو قربانیاں بھٹو خاندان نے دی ہیں وہ بے مثال ہیں۔
 آج نواز شریف اور ا ن کی فیملی جس کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جاتے رہے ہیں۔ اسے مظلومیّت کا نام دینا بذاتِ خود ایک ظلم ہے کیونکہ دونوں کے ادوار اور مقدمات کی نوعیّت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ بھٹو کو اپنے وقت کی عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ اس کے سامراج مخالف رویے کی وجہ سے ہر قیمت پر راستے سے ہٹانا چاہتی تھی جس کے لئے انہوں نے ایک ایسے جھوٹے مقدمہ قتل کا سہارا لیا جسے دنیا کے ممتاز ماہرینِ قانون نے عدالتی قتل قرار دیا جبکہ نواز شریف اور ان کی فیملی کو بدعنوانی کے ایسے مقدمے کا سامنا ہے جو ایک عالمی اسیکنڈل ہے جس میں دنیا کے اور کئی بااثر افراد اور خاندان ملّوث ہیں اور معاملہ صرف منی ٹریل کا ہے جسے بدقسمتی سے شریف خاندان ثابت نہیں کر سکا۔
بہرحال وکٹوریہ شیفیلڈ کے گھر صنم بھٹو کے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات یادگار ہونے کے ساتھ انتہائی جذباتی بھی تھی۔ صنم بھٹو کو بھٹو خاندان کی واحد غیر سیاسی شخصیت بھی سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی سیاست کے بارے میں ان کے تجزیے انتہائی حقیقت پسندانہ تھے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ میری اہلیہ اور میری بیٹی بھی تھی۔ جب صنم بھٹو نے 5جولائی 1977اور اس کے بعد ہونے والے تلخ اور دل دہلا دینے والے واقعات کا ذکر کیا تو فضا سوگوار ہو گئی اور تمام خواتین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ صنم بھٹو نے بتایا کی تمام تر دنیاوی آسائشوں کے باوجود بھٹو صاحب ہمیں ہمیشہ سادگی اور عوامی زندگی بسر کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھیں اور جب امریکہ سے واپس آئیں تو ان کی جیب میں صرف ایک ڈالر تھا۔ جسے انہوں نے بڑے فخر کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو دکھایا۔ اس پر بھٹو صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سادگی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خالی جیب سفر کریں۔ خدانخواستہ اگر راستے میں کوئی ایمرجنسی ہو جاتی اور تمھیں پیسوں کی ضرورت پڑ جاتی تو تم کیا کرتیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد خرچ کے معاملے میں نہایت کفایت شعار اور محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء انتظامیہ اپنی پوری کوشش کے باوجود ان کے خلاف مالی کرپشن کا کوئی مقدمہ نہ بنا سکی۔ اسی طرح ان کے سیاسی مخالفین ان پر ملک توڑنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن اگر وہ اس سازش میں ملوث ہوتے تو ان کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ نہ بناتے جسے وقت نے بھی غلط ثابت کر دیا بلکہ ملک توڑنے کا مقدمہ دائر کرتے۔ اور اگر وہ ثابت ہو جاتا تو بھٹو کبھی ’’ہیرو‘‘ نہ بنتے۔ انہوں نے آج کل کے ’’شاہ خرچ‘‘ حکمرانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے حکمرانوں کے بچے جس عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ہم اس کا تصّور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یاد رہے کہ صنم بھٹو عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ہیں اور ایک سادہ سے فلیٹ میں رہتی ہیں۔ اور ہم سے ملنے بھی ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر آئی تھیں۔ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کر کر کے بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ انہوں نے اپنی بھتیجی اور مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو کے بارے میں بتایا کہ وہ نہایت قابل اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں لیکن ہمارے خاندان کی بدقسمتی ہے کہ وہ مین اسٹریم پالیٹکس میں نہیں آئیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری اور ادبی تحریروں سے اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آمریت بذاتِ خود سب سے بڑی کرپشن ہے کیونکہ عوام کی مرضی کے خلاف طاقت کے زور پر غاصبانہ قبضہ سوسائٹی میں صرف ظلم اور کرپشن کو ہی فروغ دے سکتا ہے کیونکہ ایسی حکومتوں کو کسی ’’احتساب‘‘ کا خوف نہیں ہوتا۔ یہ جنرل ضیاء کا ہی دور تھا جس میں اخلاقی، مذہبی اور مالی غرض ہر طرح کی کرپشن کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء کی باقیات نے کرپشن کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔ جس کے اثرات دیگر سیاسی جماعتوں تک بھی پہنچ گئے اور پیسے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ لگ گئی کیونکہ آج پیسے کے بغیر پاکستان میں سیاست کرنے کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ میرے والد نے سیاست مہنگے ڈرائنگ روموں سے نکال کر غریب عوام تک پہنچا دی تھی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ زبوں حالی پر ہر محبِ وطن پاکستانی کی طرح محترمہ صنم بھٹو بھی انتہائی فکر مند تھیں لیکن وہ بلاول بھٹو کے بارے میں بہت پُرامید ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول اگرچہ ابھی نوجوان ہے لیکن اس میں اپنے نانا اور والدہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی میرے والد کی طرح پاکستان کو ایک روشن خیال، لبرل اور ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ جس کا اس نے مجھ سے بار ہا اظہار کیا ہے۔ معروضی حالات میں ابھی شاید اس کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ بلاول کی قیادت میں ایک دن پاکستان اور پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں گے۔

کون سے قرض اتارے ہیں؟

حا مد میر
JULY 13, 2017 | 12:00 AM


کون سے قرض اتارے ہیں؟

 عجب ستم ظریفی ہے، کبھی بھٹو خاندان کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور کبھی اسے مظلوم قرار دے کر اس کی مظلومیت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ تاریخ کا جبر نہیں تو پھر کیا ہے؟ پاناما کیس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پاکستان کی سیاست میں وہ آشوب محشر بپا کیا ہے کہ جس میں مسلم لیگ(ن) کی آشفتہ نوائی اس کی مزید رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو سے تشبیہ دی جارہی ہے اور مریم صفدر کو محترمہ بینظیر بھٹو سے ملایا جارہا ہے۔ اس ناچیز کو نواز شریف کی وہ تقاریر ابھی تک یاد ہیں جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ بینظیر بھٹو پاکستان توڑنے والے شخص کی بیٹی ہے اور اس عورت کا نام سن کر میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نواز شریف کی ایک تقریر کا وہ حصہ بھی گردش میں ہے جو انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی برسی پر کی تھی اور بینظیر حکومت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کا مزار بنانے کے لئے بھاری رقم خرچ کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔اسی زمانے میں ا یک دن محترمہ بینظیر بھٹو نے مجھے کہا کہ میں اپنے باپ کا مزار نہیں بنارہی میں تو پاکستان کے آئین پر اتفاق کرانے والے پہلے منتخب وزیر اعظم کا مزار بنارہی ہوں جسے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں عالمی طاقتوں نے خود غرض جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ مل کر تختہ دار پر لٹکادیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے مجھے کہا کہ آپ نواز شریف سے کہیں کہ وہ مجھ پر تنقید کرے لیکن میرے والد کو معاف رکھے۔ میں نے محترمہ سے کہا کہ نواز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں اور ایک صحافی کی حیثیت سے میری ان کے ساتھ جان پہچان ضرور ہے لیکن اتنی بے تکلفی نہیں کہ میں انہیں آپ کا پیغام دوں۔ یہ سن کر محترمہ مسکرادیں اور انہوں نے اپنے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے میں بہت کمزور وزیر اعظم ہوں لیکن اتنی خبر ضرور رکھتی ہوں کہ کل آپ چوہدری نثار علی خان کی گاڑی میں بیٹھ کر مری گئے۔ وہاں سے آپ بھوربن گئے اور ایک پرفضا مقام پر نواز شریف کے ساتھ لنچ کیا۔ لنچ میں نواز شریف نے آپ سے وعدہ لیا کہ وہ بہت جلد حکومت میں آنے والے ہیں اور آپ ان کی حکومت پر کم از کم پہلے تین ماہ تک کوئی تنقید نہیں کریں گے۔محترمہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ اس ملاقات میں میرے علاوہ تین اور صحافی دوست بھی موجود تھے اور ہم سب حیران تھے کہ نواز شریف کو اپنے برسر اقتدار آنے کا اتنا یقین کس نے دلایا ہے؟ بہرحال محترمہ بینظیر بھٹو نے اس ملاقات کے اختتام پر مجھے کہا کہ پتا نہیں صدر فاروق لغاری میرے ساتھ ہے یا نہیں لیکن مجھے حکومت سے نکال کر نواز شریف وزیر اعظم بن بھی گئے تو کبھی چین کی نیند نہیں سوئیں گےاور یاد رکھنا ایک دن مجھے اور میرے والد کو یاد کرکے روئیں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد نواز شریف کے ساتھی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو یاد کررہے ہیں۔ عجب ستم ظریفی ہے، کبھی بھٹو خاندان کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور کبھی اسے مظلوم قرار دے کر اس کی مظلومیت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ2006میں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے اور ماضی کی تلخیاں بھلا کر نئی شروعات کے وعدے کئے لیکن جب محترمہ کو پتا چلا کہ مسلم لیگ(ن) کے کچھ رہنما پرویز مشرف کے ساتھ رابطے میں ہیں تو انہوں نے مشرف کے ساتھ این آر او کرلیا۔ مشرف کا یہ این آر او ایک دھوکہ تھا۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میمو گیٹ سیکنڈل کا ہنگامہ کیا۔ اس ہنگامہ میں کچھ فوجی جرنیلوں اور ججوں کے علاوہ’’آزاد‘‘ میڈیا بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ تھا جس نے صدر آصف علی زرداری کی زبان کو فالج کروادیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ زرداری اب کبھی نہیں بول پائیں گے۔ زرداری کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو مسلم لیگ(ن) نے فتح کے شادیانے بجائے۔ پھر جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے اور عمران خان نے ان کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تو زرداری نے نواز شریف کی پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپا۔ جیسے ہی نواز شریف کے خلاف دھرنا ختم ہوا تو پھر زرداری صاحب کے ساتھ کیا ہوا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی سمیت تمام اہم اپوزیشن جماعتیں نواز شریف سے استعفیٰ مانگ رہی ہیں۔ نواز شریف اپنے بچائو کے لئے کٹھ پتلیوں کا ذکر کررہے ہیں اور ان کے ساتھی کہتے ہیں نواز شریف کے ساتھ وہی ہورہا ہے جوذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا۔اس صورتحال میں چوہدری اعتزاز احسن نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھٹو کے خلاف فوج اور عدلیہ نے سازش کی تھی نواز شریف کھل کر بتائیں کہ کیا ان کے خلاف فوج اور عدلیہ سازش کررہی ہے؟ بھٹو کا سامنا ایک فوجی ڈکٹیٹر سے تھا۔ ڈکٹیٹر ملک کا بااختیار صدر تھا اور بھٹو ایک قیدی تھے۔ نواز شریف تو وزیر اعظم ہیں۔ صدر ان کا اپنا آدمی ہے۔ فوج ردالفساد میں مصروف ہے۔ چیف جسٹس صاحب 1993میں نواز شریف کے وکیل تھے اور انہیں کسی ڈکٹیٹر نے نہیں بلکہ میرٹ نے چیف جسٹس بنایا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دوستوں کو جیل میں لکھی گئی بھٹو کی کتاب’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ پڑھ لینی چاہئے۔ انہیں پتا چلے گا کہ بھٹو کو تاریخ کی بجائے فوج کے ہاتھوں مرنے کا شوق تھا وہ چاہتے تو جنرل ضیاء سے سمجھوتہ کرکے جان بچا سکتے تھے اور ترک حکومت نے جان بخشی کے عوض انہیں دس سال تک پناہ دینے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن بھٹو ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹک کر اپنے ماضی کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ کفارہ ادا کردیا۔
نواز شریف نے1999کی فوجی بغاوت کے بعد جنرل پرویز مشرف سے سمجھوتہ کرلیا اور مشرف نے انہیں سعودی عرب بھیج دیا۔ جب مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کا وقت آیا تو نواز شریف نے مشرف کو بیرون ملک بھیج کر ذمہ داری سپریم کورٹ پر ڈال دی۔ کیا بھٹو اور نواز شریف کا کوئی موازنہ ممکن ہے؟ بھٹو کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب نہیں تھے
لیکن نواز شریف اور مریم صفدر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب نہیں تھے؟ اگر فوج اور عدلیہ ان کے خلاف کوئی سازش کررہی ہے تو وہ ثبوت سامنے لے کر آئیں، میرا وعدہ ہے میں سازش کے خلاف آواز اٹھائوں گا۔ بھٹو تو ایک ڈکٹیٹر کے قیدی تھے۔ انہوں نے جیل میں بیٹھ کر ڈکٹیٹر اور اس کے حواری ججوں کو ننگا کردیا۔ نواز شریف تو قیدی نہیں ہیں۔ مجھے نہیں تو کسی بھی پسند کے صحافی کو بلا کر کیمرے کے سامنے ثبوت پیش کر دیں۔ سیاسی منظر بدل جائے گا۔اگر وہ صرف گیڈر بھبکیاں دیتے رہے تو جان لیں کہ جے آئی ٹی میں بہت سی تفصیلات، وقت کی تنگی کے باعث شامل نہ ہوسکیں۔ کچھ معاملات کا تعلق پاناما سے نہیں ہے وہ بھی سامنے آنے والے ہیںاور اسی دوران عمران خان کا حساب شروع 
ہوجائے گا۔جے آئی ٹی رپورٹ کو عمران نامہ قرار دینے والے غلط ثابت ہوجائیں گے۔
https://www.bankofamerica.com/sitemap/hub/signin.go

مہذب معاشرے کے لئے خواتین کی عزت اور احترام ضروری ہے۔بلاول بھٹو زرداری چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی






پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ز رداری نے کہا ہے کہ مہذب معاشرے کے لئے خواتین کی عزت اور احترام ضروری ہے۔ آمرانہ دور میں خواتین پر تشدد اور انہیں جیل میں قید کیا گیا۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے خواتین کا شاندان کردار رہا ہے۔ پیپلزپارٹی شعبہ خواتین پنجاب کے ایک وفد جس میں صدر مسز ثمینہ گھرکی، نائب صدر ناصرہ جاوید میو اور جنرل سیکریٹری نرگس فیض ملک پر مشتمل وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو فخر ہے کہ مادر عوام بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت ا ور آئین کی بحالی کے لئے تاریخی اور بے مثال جدوجہدکی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ محترمہ بینظیر شہید اور مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی بہادری اور جدوجہد پارٹی کے لئے مشعل راہ ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ معاشرے میں خواتین کو باوقار مقام دلوانا پارٹی کا منشور اور مقصد ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اس مقصد کے لئے شروع کیا کہ ریاست کے ثمرات غریب ماﺅں بہنوں تک پہنچیں۔ پاکستان پیپلزپارٹ کی حکومت نے خواتین پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے خلاف موثر قانون سازی کی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے خواتین عہدیداروں کو ہدایت کی کہ پارٹی کو مضبوط کریں اور ممبر سازی پر توجہ دیں۔ مستقبل میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ چیئرمیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے ضمنی انتخابات میں خواتین نے پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار کو کامیاب کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری آپ کے ساتھ ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا پاکستان بنانے کے لئے جہاں خواتین کی عزت اور احترام کے ساتھ ساتھ ریاست میں اہم مقام حاصل ہو کے لئے ضروری ہے کہ شعبہ خواتین اہم کردار ادا کرے۔ درایں اثناءچیئرمین پیپلزپارٹی سے آج سینیٹر سحر کامران، چوہدری یاسین، سید میر محمد ، نجم دین خان سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں نے ملاقاتین کیں۔

https://mediacellppp.wordpress.com/

At the center of a corruption case involving the Pakistani Prime Minister is a font




By Euan McKirdy and Sophia Saifi


 font was introduced in 2007 but the 'Innovative Sharif Family' used it in 2006. Microsoft pe bhi qabza kar lia?😂
The Microsoft font Calibri could be an unlikely smoking gun in a corruption scandal which has mired Pakistan's ruling family and captivated the country.
The scandal centers around allegations that Prime Minister Nawaz Sharif's family owns properties in London through offshore companies. And while owning property in itself is not illegal, opposition parties have questioned if the money to buy them came from public funds.
Last November, the Prime Minister's daughter, Maryam, tweeted images of a disclosure form claiming she wasn't the real owner of the apartments.
    She said the documents proved she was a "trustee and not the owner" of the properties.
    Investigators looking into the scandal noticed an odd thing.
    The document is dated 2006. But it was typed using Calibri.
    And, as the investigators noted in their report, that font was not commercially available until the following year.

    The political dynasty

    When the Joint Investigation Team was set up in April, Prime Minister Sharif pledged that if anything from the investigation proved corruption, he would step down.
    Sharif's term as Prime Minister ends next year and he can't run again because of term limits. His daughter, Maryam, is widely regarded as his potential successor.
    After the investigation team sent its report to the Supreme Court, Maryam Sharif rejected it and she has denied any wrongdoing. Sharif's son, Hussain, is also under investigation. He too has said all the business affairs were legal.
    Government lawyers are expected to formally challenge the findings.

    The scandal

    The properties are at the center of a scandal that was first ignited with the release of the Panama Papers in April 2016. That's the huge cache of leaked documents, dating back four decades, that are allegedly connected to Panama law firm Mossack Fonseca that revealed the financial dealings of some of the world's most well-known people.
    While Sharif himself was not named, his three adult children were linked in the Papers to offshore companies that owned properties in London. One British Virgin Islands holding firm listed Maryam as the sole shareholder.
    Calls for an investigation, led by former cricketer-turned-opposition politician Imran Khan, began when three of Sharif's children, his sons Hussain and Hasan, and daughter Maryam, were named in the 2016 document dump. Hasan too has denied wrongdoing.

    The reaction

    Pakistani social media users greeted the news of Maryam Sharif's alleged forgery with a mixture of humor and shock, as the hashtag "fontgate" trended on Twitter.
    Pakistani journalists also noted that a Wikipedia page focusing on the font had been edited dozens of times over two days -- an unusually high number.